آج کے ایران کا انقلاب اسلامی سے پہلے کے ایران کے ساتھ موازنہ: اسامہ حمدان
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مکالمے کی تفصیل:
سوال: آج سے 43 سال قبل اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہؤا ہے، اگر آج کے ایران کا انقلاب سے پہلے کے ایران کے ساتھ موازنہ کرنا چاہیں تو کیا کہنا چاہئے؟
اسامہ حمدان: اس طرح کا کوئی بھی موازنہ وسیع بحث کا متفاضی ہے اور ہم یہاں مختصر الفاظ میں یہی کہیں گے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے خطہ غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ سازباز کی ڈھلان پر پہنچا دیا گیا تھا۔ شاہ کی حکومت صہیونی ریاست کی متحد تھی اور مصر – جو خطے اور عالم عرب کا معنوی مرکز سمجھا جاتا تھا، – مقاومت کے اگلے مورچے کو خالی کرکے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی طرف پسپا ہو چکا تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے جدوجہد کے حوصلوں کو بلند کردیا اور اگرچہ ہم کیمپ ڈیوڈ میں مصر کو کھو چکے تھے لیکن صہہیونی ریاست بھی خطے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ اپنے ایک دیرینہ حلیف [ایران] سے محروم ہو گئی اور اسلامی انقلاب کے بعد ایران ایک ترقی پسند ملک میں تبدیل ہو گیا۔
سوال: کیا تہران میں یہودی ریاست کے سفارت خانے کی بندش کو اس تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں؟
اسامہ حمدان: یہ مسئلہ یہودی ریاست کے سفارتخانے کی بندش اور سفارت خانے کو فلسطین کی تحویل میں دینے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ میرے خیال میں اسلامی انقلاب کی کامیابی بذات خود خطے میں ایک تزویراتی تبدیلی تھی کیونکہ اس واقعے کے بعد خطے میں امریکہ اور یہودی ریاست کا ایک بڑا اڈہ اسلامی ظالمین اور مستکبرین کے مقابلے میں مقاومت اسلامیہ کے حمایتی مرکز اور اسلام کے بڑے مورچے میں تبدیل ہوگیا۔
علاوہ ازیں، ہم عالم اسلام کی بیداری کی سطح میں ایک بڑی تبدیلی اور خالص اسلامی اقدار کی طرف واپسی کی جانب رواں دواں ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے دشمنوں نے امت مسلمہ کو فکری، ثقافتی اور معاشرتی لحاظ سے گمراہ اور منحرف کرنے کی وسیع کوششیں کی تھیں اور امت کو یہ باور کرانے کی وسیع سازشیں چلائی تھیں کہ دین اسلام آج کے انسان کے تقاضوں اور ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت نہیں رکھتا؛ لیکن ایران کے پیش کردہ نمونے نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں اس سازش کو باطل کر دیا اور یہ حقیقت ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح میں ایک اور اہم موڑ تھی۔
دوسرے اہم نکتے کا تعلق ایران کے اندر سے ہے۔ یہاں ایک آمر، استبدادی اور آزادیوں کے کچلنے والے نظام حکومت کا تخت سرنگوں کیا گیا اور آزادی، استحکام اور ایک جمہوری نظام کا قیام عمل میں لایا گیا؛ ایک ایسا نظام قائم ہؤا جس کے تحت عوام پارلیمان کے اراکین اور صدر کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اور حکومت کے تمام اداروں پر عوام کی نگرانی کا انتظام کیا گیا؛ ایک ایسا نظام جس میں اقتدار گردش کی حالت میں رہتا ہے اور یہ موقع پورے عوام کو فراہم کیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی بلاشبہ ایران کے اندر ایک باعظمت اور حیرت انگيز تبدیلی تھی۔
اگر ہم غائرانہ نگاہ سے دیکھیں تو بآسانی سمجھ لیتے ہیں ایران اسلامی انقلاب سے پہلے اپنے تمام تر سرمایوں اور بے پناہ وسائل کے باوجود ایک وابستہ ملک تھا جس نے اسلامی انقلاب کے بعد ایک ترقی یافتہ ملک اور دوسرے ممالک کی نسبت قائد و زعیم کی حیثیت اختیار کر لی؛ جو اپنی پالیسیوں کا اختیار رکھتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کے راہنما دوسرے ممالک سے ڈکٹیشن لینے کے بجائے خود ہی اپنی پالیسی سازی کا کام سرانجام دیتے ہیں اور ان کی پالیسی سازی قومی مفادات نیز پوری امت مسلمہ کے مفادات کو مد نظر رکھ کر انجام دی جاتی ہے۔ یہ انقلاب سے قبل اور موجودہ ایران کے درمیان ایک سرسری موازنہ تھا گو کہ ایران کے ان دو ادوار کے درمیان موازنہ بہت تفصیلی ہے۔
جاری۔۔۔
[…] تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ سوال: جناب اسامہ! ان تمام تبدیلیوں کا تعلق […]