اربعین سید الشہداء(ع)، عزت و سرافرازی کی میعاد گاہ
فاران؛ بحمد اللہ اس بار کورونا وباء کے باوجود عاشقان حسینی کا ٹھاٹھے مارتا سمندر نجف سے کربلا پورے تزک و احتشام و عزت و وقار کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ، تمام تر پابندیوں کے باوجود امریکہ، یورپ و افریقہ سے لیکر ہندو پاک اور لبنان شام نیز دنیا کے گوشے گوشے سے عشق حسینی کے قطرے اس سمندر کا حصہ بنے دنیا کے پر امن و با وقار انسانی مارچ کے ایک حسین منظر کو پیش کر رہے ہیں ، یقینا یہ ہماری عزت ، ہمارے وقار اور عزاء سید اشہداء کے سایے میں ہماری سربلندی ساری دنیا کے سامنے وہ اظہار ہے جسے دائمی بنانے کی ضرورت ہے ، اور اسکے لئے ضروری ہے نجف سے کربلا تک اپنی روح کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ اپنی فکر کو فکر کربلا سے متصل کیا جائے آپ اگر تحریک کربلا پر نظر ڈالیں تو آپکو تین ایسے اہم عناصر نظر آئیں گے جو کربلا میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں ا۔عنصر عقل و منطق ۔ ۲۔ عزت و سربلندی اور شجاعت ( حماسہ )۳۔ جذبات و احساسات ہم بلا شبہہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو تحریک سید الشہدا کے فکری سرمایہ کو اپنے کاندھوں پر ایک ستون و پلر کی حیثیت سے اٹھائے ہوئے ہیں ،
چنانچہ ہمیں صرف راستہ ہی نہیں چلنا ہے بلکہ راستہ چلتے چلتے اپنے مقصد طرف یوں گامزن ہونا ہے کہ اپنا جائزہ لیتے ہوئے چلنا ہے یہ دیکھنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے جو کربلا تعمیر کی تھی وہ کہاں پر ہے اور ہم کہاں ہیں چنانچہ ہم اگر ہم عالم اسلام کی صورت حال کا ایک جائزہ لیں تو ہمیں اپنے اس موجودہ دور میں کربلا سے ہٹ کر وہ شخصیتیں نظر نہیں آتیں جو قو م کی جذبات و احساسات میں تلاطم بپا کر کے انہیں عزت و سربلندی کی راہوں کی طرف چلنے کے لئے ابھاریں ، ایک عجیب قسم کا ہوکا عالم ہے جیسے موت کے فرشتے نے آکر پوری ملت اسلامیہ کا گلا دبا دیا ہو اور اسکی سانس اکھڑ رہی ہو ، ہم ایسے ہی بے حس و حرکت پڑے ہیں دشمن ہمارے خلاف مسلسل سازشیں کر رہا ہے اور ہمیں ذرا بھی خطرہ کا احساس نہیں ہے ، بلکہ انتہائی ڈھٹائی و ذلت کے ساتھ ہم کاسہ گدائی لئے دوسروں کے در پر اپنے تحفظ و اپنی بقا کی بھیک مانگتے نظر آ رہے ہیں ، یہ فکر کربلا سے دوری کا نتیجہ ہے ورنہ جہاں فکر کربلا ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کس طرح سے تمام تر مشکلوں کے باوجود کربلائی مزاج رکھنے والے لوگ باطل پرست طاغوتی طاقتوں سے نبر د آزما ہیں اور زمانے کی یزیدیت مل کر بھی انکا کچھ نہیں بگاڑ پا رہی ہے نہ اقتصادی ناکہ بندی ، نہ ہی دنیا میں الگ تھلگ کر دینے کی پالیسی کوئی بھی سیاست فکر کربلا کے سامنے چلتی نظر نہیں آ رہی ہے ، ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ملت اسلامیہ مل بیٹھ کر غور کرے اور سمجھے کہ سربلندی و عزت خیمہ حسینی ؑ کے سوا کہیں اور نہیں ملنے والی ہے اس لئے عزت و سربلندی اگر چاہیے تو در حسین پر سر جھکانا ضروری ہے اور اگر ہم در حسین ؑ پر سرجھکالیں گے تو دنیا و آخرت کی سربلندی ہماری جھولی میں خود آ جائے گی ، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حسینی کردار کو اپنے وجود میں اتارا جائے محض بڑی بڑی باتوں اور نعروں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔
امت مسلمہ کا جو حال ہے وہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس طرح بڑی ڈھٹائی سے ساری دنیا کو مشرک کہہ کر خود کو پرچم توحید کا وارث قرار دینے والے ملک کو مسلسل فضیحت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور انکے اپنے ہی آقا نے آنکھیں دکھاتے ہوئے آئینہ بھی دکھا دیا کہ اگر ہماری بیساکھی نہ ہو تو تم دو ہفتے بھی چلنے کے لائق نہیں۔ یہ بات اپنے آپ میں قابل غور ہے کہ یہ فضیحت و خفت انہیں کے دامن گیر ہے جو دعواے توحید تو کرتے ہیں لیکن روح توحید سے بے خبر ہیں اس لئے کہ پیغام حسینی ؑ سے لا تعلق ہیں اسکے بر خلاف جہاں حسینی پیغام ہے وہاں چالیس سال کا عرصہ ہونے آیا ساری توانائی صرف کر لینے کے باوجود بھی دشمن کو سوائے ہار کے کچھ نہیں نصیب ہوا ہے ، خیر یہ تو امت مسلمہ دیکھ ہی رہی ہے کہ جہاں حسینت ہے وہاں عزت و وقار کا عالم کیا ہے جہاں حسینیت سے فرار ہے وہاں کی ذلتوں کا عالم کیا ہے ، لیکن ہمیں اگر اپنے ملکی سطح پر بھی اپنے معاشرہ کو عزت و سربلندی عطا کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے ان راہوں کی جستجو کی جائے جن پر چل کر کربلا والے رہتی دنیا تک منارہ عزت بن گئے ۔ اور اسکے لئے زبانی جمع خرچی نہیں ان راہوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو عزت و سربلندی پر منتہی ہوتی ہیں۔
تبصرہ کریں