اردگان نے ایک بار پھر اپنی بانہیں صہیونیوں کے لئے کیوں کھولے ہوئے ہیں؟

جماعت انصاف و ترقی کے مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی قربتیں حاصل میں کامیابی حاصل کرنے کی صورت میں بھی، انہیں اندرون سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کے بےشمار ساتھی انہیں چھوڑ سکتے ہیں اور ترکی کے عوام اور جماعت کے راہنما اور اندر کے وہ لوگ ان پر منافقت کا الزام لگا کر انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ سکتے ہیں.

فاران؛ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا: ہمیں امید ہے خلیج فارس اور مشرق وسطی کی ریاستوں “بالخصوص اسرائیل اور امارات” کے ساتھ تعلقات کا نیا باب کھل جائے!!!
جناب رجب طیب اردگان کچھ برس قبل ایک جہاز غزہ کی امداد کے لئے روانہ کیا اور پھر یورپ میں ایک اجلاس کے دوران انچہانی اسرائیل صدر شمعمون پیرز پر برس پڑے تو کچھ لوگوں نے انہیں خالد بن ولید کا لقب دیا حالانکہ یہ صرف ایسے کنويں سے چند ڈول پانی نکالنے سے زیادہ کچھ نہ تھا جس میں کتا گرا ہؤا ہوتا ہے، اور اس کنویں کی تطہیر کے لئے پانی نکالنے کا مرحلہ “کتا” نکالنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جبکہ جناب اردگان نے کتا نکالے بغیر کنویں کی تطہیر کا انتظام کیا بایں ہمہ انہیں مختلف ممالک کے اخوانی برادران نے اپنے کسی تاریخی سورما کا لقب تک دے دیا۔ اردگان ایسے حال میں اسرائیل کے خلاف زبانی کلامی موقف اختیار کررہے تھے کہ انقرہ میں غاصب ریاست کا سفارتخانہ اور تل ابیب میں ترکی کا سفارتخانہ بدستور کام کررہا تھا!! کچھ دن ان دو کے درمیان ظاہری طور پر تناؤ کی صورت حال بھی دونوں کے گٹھ جوڑ سے جاری رہی مگر اب ایک بار پھر جناب نے اپنے بانہیں کھول دی ہیں اور اب یہودی ریاست نئی شرطیں سامنے لا رہا ہے اور وہ یہ کہ اردگان حماس کو نہتا کر دیں تو ۔۔۔۔ گویا منصوبہ بڑا زیرکانہ ہے مگر سمجھنے والے سمجھ ہی لیتے ہیں۔
برکی کے اخوانی صدر مسلمانوں کے بدترین دشمن اسرائیل کے سرغنے اسحاق ہرزوگ کے لئے لال قالینیں بچھانے کے لئے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ ہرزوگ شاید اسی ہفتے جدید دور کے سلطان محمد فاتح کی اداکاری کرنے والے رجب طیب اردگان کی دعوت پر انقرہ کے دورے پر آ رہا ہے اور میزبان صدر کو مہمان سے بہت ساری امیدیں ہیں۔ وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی چوری کی گیس یورپ منتقل کرنے کے لئے ہرزوگ سے معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، اور چونکہ اس سلسلے میں ترکی کے روایتی دشمن یونان اور قبرس بھی فلسطینیوں کی مسروقہ گیس کی یورپ برآمد کرنے کے سلسلے میں یہودی ریاست کے ساتھ تعاون کررہے ہیں، اس لئے صدر اردگان اسرائیل کو ان کی نسبت زیادہ رعایتیں دینے کی پیشکش کریں گے۔
اخوان المسلمین کے ساتھ بھی ان کا رویہ کچھ مخلصانہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی اخوانیت کی سطح مفادات کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے، گوکہ اخوان کے تمام دھڑے اقتدار کے قریب پہنچ کر یہودیت کے سامنے ہتھیار ڈال ہی دیتے ہیں۔ اس وقت اردگان نے صہیونیوں کے علاقائی اتحادیوں – یعنی سعودی عرب اور امارات – کی خوشامد کے لئے اخوان المسلمین کی حمایت بند کردی ہے اور اسرائیل کی خوشامد کے لئے فلسطین کی مسروقہ گیس یورپ منتقل کرنے کے درپے ہیں، کیونکہ انہیں اندرونی سطح پر معاشی خلفشار کی وجہ سے اگلے انتخابات میں شکست کا خطرہ لاحق ہے، چنانچہ وہ بہر قیمت عربی-عبرانی محاذ نیز ان کے امریکی اور یورپی سرپرستوں کی حمایت حاصل کرکے اگلے انتخابات میں شکست سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اردگان در حقیقت اپنی ذاتی اور جماعتی مفادات کو مد نظر رکھ کر، اپنی تمام مشکلات انتخابات سے پہلے ہی حل کرنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنجناب کی مشکلات ایک سے زیادہ ہیں، وہ شام کی جنگ میں ناک تک ڈوبے ہوئے ہیں، ان کی فوجیں غیر قانونی طور پر شام کے وسیع علاقے میں تعینات ہیں، اور وہ شام میں موجود دہشت گرد ٹولوں کے حامی ہیں، اردگان کے حمایت یافتہ ٹولوں میں القاعدہ سے وابستہ تنظیمیں بھی شامل ہیں، انھوں نے گلوبلائزیشن ریسرچ سینٹر کے شائع کردہ پیپے ایسکوبار (Pepe Escobar) کے مضمون کے مطابق قزاقستان میں حالیہ بغاوت میں بھی ان کے پالے ہوئے دہشت گردوں کا اچھا خاصا کردار رہا ہے جنہیں امریکیوں اور ترک حکومت نے “داعش کی شکل میں” افغانستان منتقل کیا تھا اور وہ کرغیزستان کے راستے قراقستان میں داخل ہوئے تھے۔
اردگان نے اپنی حالیہ تقریر میں امارات اور غاصب صہیونی ریاست سمیت علاقے کے ممالک کے ساتھ مصالحت پر زور دیا تھا۔ وہ صہیونی ریاست کی گیس پائپ لآئن میں امارات کی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں تاکہ وہ اس طرح ترکی کے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جماعت کی مقبولیت میں 32 فیصد کمی آئی ہے۔
ادھر اردگان کی خودغرضي کی وجہ سے ان کی جماعت کے کئی راہنما ان سے الگ ہوچکے ہیں؛ چنانچہ یہ یقینی بات نہیں ہے کہ اسرائیل کی چاپلوسی سے ان کے بےحساب مسائل حل ہونگے بھی یا نہیں اور وہ اگلے انتخابات میں اسرائیل کی حمایت کے سائے میں کامیاب ہو بھی جائیں گے یا نہیں؟ اور پھر اسرائیل خود بھی ہزاروں مسائل میں گھرا ہؤا ہے۔ وہ ابھی تک “سیف القدس” کی جنگ کے زخم چاٹ رہا ہے اور فلسطینی مقاومت کے ہاتھوں شکست فاش سے جنم لینے والے بحرانوں کا سامنا کررہا ہے؛ حزب اللہ لبنان، شام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ میں انتہائی بری شکست کھا چکا ہے اور اس کے اپنے کرتے دھرتے اس کے زوال کی پیشنگوئیاں کررہے ہیں تو کیا وہ – جو اپنے مسائل حل کرنے سے عاجز ہے – دوسروں [بشمول اردگان] کے [داخلی] مسائل حل کرسکے گا؟؟؟
یہی نہیں بلکہ جماعت انصاف و ترقی (Justice and Development Party) کے حالات سے آگاہ مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی قربتیں حاصل میں کامیابی حاصل کرنے کی صورت میں بھی، انہیں اندرون سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کے بےشمار ساتھی انہیں چھوڑ سکتے ہیں اور ترکی کے عوام اور جماعت کے راہنما اور اندر کے وہ لوگ ان پر منافقت کا الزام لگا کر انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ سکتے ہیں جو [امدادی کشتی غزہ بھجوانے اور شمعون پیریز پر برس پڑنے] پر انہیں زمانے کا خالد بن ولید سمجھ رہے تھے، کیونکہ وہ آج اسی غاصب ریاست کی گود میں بیٹھ رہے ہیں جس نے غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے اور فلسطینی عوام اور بچوں بوڑھوں کی قاتل ہے اور اب جناب اردگان فلسطینیوں کی گیس چرانے کے لئے اسی ریاست کی مدد کرنا چاہتے ہیں!