اسرائیل، ایسا بھوت جس کا مسکن مغربی ایشیا میں اور روٹی پانی یورپ اور امریکہ سے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اقوام متحدہ میں یہودی ریاست کے مندوب گلعاد اردان نے غاصب ریاست کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ کو پھاڑ دیا۔ اسرائیل سفیر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اس فعل کا ارتکاب کیا۔
گلعاد اردان (Gilad Erdan) کا دعوی تھا کہ “اس رپورٹ کی جگہ صرف اور صرف ردی کی ٹوکری ہے اور یہی وہ برتاؤ ہے جو ہم اس رپورٹ کے ساتھ روا رکھیں گے”۔
علاقائی تزویراتی مطالعات کے سینئر محقق پروفیسر محمود مہتدی نے اس رپورٹ پر تبصرہ کیا ہے جو یہاں قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
اقوام متحدہ کی دستاویزات پھاڑنے کا عمل دوسری بار دہرایا گیا ہے؛ اس سے پہلے سابق لیبیائی صدر معمر القذافی نے اقوام متحدہ کے منشور کا متن پھاڑ کر پھینک دیا تھا اور اب صہیونی ریاست کے مندوب نے اقوام متحدہ کی انسان حقوق کونسل کی دستاویز کو پھاڑ کر پھینکا ہے اور اس کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ عمل اور قذافی اور صہیونی نمائندے کے رویوں کا باہمی موازنہ بہت سے مسائل پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔
قذافی نے اقوام متحدہ میں کہا تھا: “اس ادارے [اقوام متحدہ] کی شکل کچھ اس طرح سے ہے کہ چھوٹے اور کمزور ممالک ہمیشہ مظلوم ہیں، مثال کے طور پر ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے سزا پانے والے تمام ممالک تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں؛ اور حتی ایک بار بھی امریکی صدر یا دنیا کے کسی بدمعاش کو اس عدالت نے سزا نہیں دی ہے؛ حالانکہ اقوام متحدہ کا منشور کہتا ہے کہ تمام قومیں اقوام متحدہ کے قوانین کے سامنے برابر ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ کچھ ممالک کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔ اس منشور کا تعلق دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے وقت کی صورت حال سے ہے، اور اس وقت یہ قوانین معتبر نہیں ہیں”، اور آخر کار قذافی نے اسے کیمروں کے سامنے پھاڑ کر پھینک دیا۔
اس خطاب میں مرحوم قذافی نے تیسری دنیا کے کمزور ممالک کی ترجمانی کی ترجمانی پر مبنی خطاب کیا؛ لیکن اسرائیلی مندوب کی داستان مختلف تھی۔ کیونکہ اسرائیل مغرب کی مسلط عالمی حکمرانی کا حصہ اور بڑی طاقتوں پر مسلط ریاست ہے۔ اسرائیل نے جس چیز کو پھاڑا اس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن نے منظور کیا ہے۔ جبکہ جناب بائیڈن کہتے ہیں کہ “ہم انسانی حقوق اور جمہوریت کے سہارے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبار پلٹانا چاہئے”۔
اب سوال یہ ہے کہ اسرائیلی مندوب نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو کیوں پھاڑا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے پہلے یورپ اور امریکہ میں، فلسطینیوں پر، یہودی ریاست کے غیر انسانی مظالم اور جرائم کے بارے میں بحث چھڑ گئی تھی؛ اس وقت مبصرین کو ہمیشہ کی طرح یہی توقع تھی کہ امریکہ اور یورپ اسرائیلی مظالم پر کوئی خاص موقف اختیار نہیں کریں گے؛ سوال: کیوں؟ کیا وہ کوئی موقف اپنا نہیں چاہتے یا موقف اپنانے سے عاجز ہیں؟ اور جواب یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایسا کوئی موقف اختیار کرنے سے عاجز ہیں؛ کیونکہ اسرائیل ان کی اپنی حکمرانیوں میں موجود ہے اور مغربی حکومتوں کی جڑوں تک میں اثر و رسوخ رکھتا ہے، چنانچہ یہ حکومتیں اسرائیل کے سامنے بے بس ہیں۔ اور ہاں! وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انسانی حقوق [کا نعرہ تو ایک سیاسی حربہ ہے جس کے ذریعے وہ اسرائیل کو تحفظ دیتے رہتے ہیں تو انسانی حقوق] کی اہمیت اتنی نہیں ہے جس کی خاطر وہ اسرائیل کی مخالفت کریں اور اس کی مخالفت مول لیں۔
تاہم میرے خیال میں اسرائیل کا یہ اقدام اس کے لئے بہت سارے آثار اور خطرناک عواقب کا باعث بنے گا۔ اس کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ خطرناک اثر اسرائیل کی اپنی پوزیشن، اور یورپ و امریکہ میں اسرائیل کے حوالے سے رائے عامہ پر مرتب ہوگا؛ کیونکہ اسرائیل ایسے دیو کی مانند ہے جس کا مسکن مغربی ایشیا میں ہے اور روٹی پانی یورپ اور امریکہ سے۔
البتہ اس میں بھی شک نہیں ہے کہ یہودی ریاست [اور اس کے آقاؤں] کے لئے عالم اسلام سمیت عالمی رائے عامہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور آشکارا مقبوضہ فلسطین سمیت کئی اسلامی ممالک پر جارحیت کا ارتکاب کررہی ہے، لیکن اسرائیل کے لئے یورپ اور امریکہ کی رائے عامہ اہمیت رکھتی ہے۔
آج ایک طرف سے مغرب کی طاقت رو بہ زوال ہے اور دنیا کے اطراف – بالخصوص مغربی ایشیا [یا مبینہ مشرق وسطی] – میں اسلامی انقلاب کے مدار خالص اور مخلص و آزاد قوتیں معرض وجود میں آئی ہیں جس کو “محورِ مقاومت” (Axis of Resistance) کہا جاتا ہے اور دوسری طرف سے اسرائیل کے مسلسل مطالبات یورپ اور امریکہ کی حکمت عملیوں پر اضآفی اخراجات ٹھونس رہے ہیں۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی دستاویزات پھاڑنے سے غاصب ریاست کے اندرونی سیاسی ماحول اور انتہاپسند صہیونی یہودیوں کے لئے کسی حد تک خوش آیند ہو لیکن اس قسم کے اقدامات سے مغرب میں اس کے پانی روٹی کے ذریعے میں شگاف ضرور پڑ جائے گا۔ [کیونکہ اقوام متحدہ مغرب کی عالمی حکمرانی کے نفاذ کا بنیادی ذریعہ ہے]۔
آج ہم بڑے وضوح کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ یورپی اور امریکی حکمرانیوں کی مختلف تہہوں میں اسرائیل پر تنقید اور اسرائیل کی طرف سے ٹھونسے گئے اخراجات پر احتجاج کا رجحان رفتہ رفتہ رو بہ عروج ہے۔ آج وہ زمانہ ہرگز نہیں ہے جب کوئی بھی مغرب میں اسرائیلی جرائم پر تنقید کرتا تو اسے یہود دشمن قرار دے کے کھڈے لآئن لگایا جاتا تھا اور جیل میں بھیج دیا جاتا تھا۔
گوکہ اسرائیل اپنی شرمناک اور مجرمانہ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ دوسروں کے لئے باعث مشقت تھا لیکن سابقہ عشروں میں مغرب اپنی مجبوریوں یا سیاسی و تزویراتی عزائم کی خاطر انہیں برداشت کرلیتے تھے لیکن وہ تقاضے نہیں رہے اور اسرائیل آج مغرب کے روایتی تزویراتی حکمت عملیوں میں خلل ڈال رہا ہے اور مغربیوں کو ایسے امور میں ملوث کررہا ہے جو ان کے ایجنڈوں اور پروگراموں میں موجود نہیں ہیں؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی ممالک پر اسرائیلی شر انگیزیوں کے بھاری اخراجات میں مسلسل اضافہ ہونے کے سبب، وہاں کے نظامات کی صدائے احتجاج بلند سے بلند تر ہورہی ہے۔ اور اقوام متحدہ کی دستاویزات پھاڑنے جیسے صہیونی اقدامات مستضعفین، سرزمین فلسطین اور محاذِ مزاحمت کے لئے مثبت نتائج پر منتج ہونگے اور صہیونی ریاست کے حامی یقینا تذبذب کا شکار ہونگے، کیونکہ مغرب کے بنائے ہوئے قوانین اور ان ہی کے متعین کردہ مشن کی پامالی کے حوالے سے یہودی ریاست کی اتنا بے شرمانہ اور کھلا اقدام، پہلی بار سامنے آیا ہے اور اس کا رد عمل اب زیادہ اعلانیہ انداز سے سامنے آئے گا۔
تبصرہ کریں