اسرائیلی وزیر بن گویر فلسطینی مزاحمت کے سامنے بے بس

غاصب صیہونی حکومت کے اس شکست خوردہ قومی سلامتی کے وزیر بن گویر نے فلسطینیوں کو صلاح دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلحہ ترک کردیں لیکن دوسری طرف آئے روز فلسطینی مزاحمت کاروں کی کاروائیوں نے اپنی کاروائیوں کے ذریعہ بن گویر کے مشوروں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے اور فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا ہے۔

فاران: غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی ایتامر بن گویر جو کہ شدت پسند صیہونی سوچ کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی شدید ترین دشمنی کے عنوان سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں فلسطین کے مغربی کنارے میں جاری مسلسل فلسطینی مزاحمت کے سامنے شدید بے بس نظر آتے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں مسلسل بن گویر سے متعلق یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی کاروائیوں نے غاصب صیہونی حکومت کے فلسطین دشمن قومی سلامتی کے وزیر بن گویر کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے اور وہ حالیہ دنوں میں شدید بوکھلاہٹ اور پریشانی کے عالم میں ہیں۔ بن گویر نے فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کے لئے جو اعلان کئے تھے وہ سب کے سب دھرے رہ گئے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے فلسطینی مزاحمت مزید تقویت حاصل کر رہی ہے اور آئے روز فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے غاصب صیہونیوں کے خلاف کاروائیوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

بن گویر کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ جنین کیمپ جو کہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے یہاں پر سیکڑوں صیہونی فوجیوں کی مدد سے آپریشن شروع کرنے کے باوجود بھی مزاحمت کاروں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اسرائیل کی فوجی یونٹس میں جنین کیمپ سے ہونے والی مزاحمتی کاروائیوں کے بارے میں چہ میگیویاں جاری ہیں۔ اسرائیلی فوجی حیرت زدہ ہیں کہ آخر ایک محدود سے رقبہ میں کس طرح فلسطین مجاہدین اپنے آپ کو محفوظ کئے ہوئے ہیں اور غاصب صیہونی فوج تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود ان کے خلاف کامیابی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ بن گویر کی ناکامی اور صیہونی افواج کی ناکامیوں کے باعث جہاں صیہونی آباد کاروں میں مایوسی اور گھبراہٹ پائی جاتی ہے، وہیں ساتھ ساتھ غاصب صیہونی فوج کے اندرونی حلقوں میں بھی شدید مایوسی اور شکست خوردگی کا احساس بلند سطح پر پہنچ چکا ہے۔

غاصب صیہونی حکومت کے قومی سلامتی وزیر بن گویر کے لئے ایک اور بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں سیاسی حلقوں اور صیہونی آبادکاروں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ بن گویر جب حزب اختلاف میں تھے تو وہ حکومت پر صیہونی آبادکاروں کو تحفظ فراہم کرنے سمیت ان کے مفادات کے تحفظ میں ناکامی پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔ وہ فوجی آپریشن والے مقامات پر جاتے تھے اور پر تشدد قسم کے بیانات دیتے تھے اور فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کے اعلانات کیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ حکومت پر شدید تنقید کرتے تھے۔ ان کے پر تشدد بیانات کو میڈیا پر بھی پوری کوریج دی جاتی تھی اور صیہونی آباد کار بن گویر کو اپنے تحفظ کے لئے ایک امید کی کرن سمجھ رہے تھے لیکن اب خود جبکہ وہ قومی سلامتی کے وزیر ہیں اور بڑے بڑے دعووں کے باوجود بے بس ہیں کہ صیہونی آباد کاروں کا تحفظ یقینی بنائیں۔

بن گویر جب غاصب صیہونی حکومت میں وزیر برائے قومی سلامتی کے عہدے پر آیا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ بہت جلد اپنے پر تشدد افکار اور خیالات کے ذریعہ فلسطینی عوام پر قابو پا لے گا اور فلسطینیوں پر اپنے اصول تھونپ کر انہیں ایک کونے میں دھکیل دے گا۔ بن گویر کا یہ خیال تھا کہ وہ فلسطینیوں کو مجبور کرسکتا ہے کہ تمام فلسطینی اس کے تابع ہوجائیں۔ صیہونی حکومت سے ڈریں اور خوف کھائیں۔ بن گویر کے فلسطینی عوام اور فلسطینیوں کی مزاحمت کے بارے میں تمام تر خیالات غلط ثابت ہوئے کیونکہ نہ تو فلسطینی بن گویر کے پر تشدد بیانات کے سامنے جھکے ہیں اور نہ ہی بن گویر کی پالیسیوں کو قبول کرنے کے لئے تابع ہوئے ہیں بلکہ فلسطینی عوام کی جاری مزاحمت کے نتیجہ میں بن گویر کی پالیسیاں ناکام ہو رہی ہیں اور غاصب صیہونی آباد کار اب بن گویر پر ہی تنقید کر رہے ہیں۔

ان حالات میں بن گویر کی کوشش ہے کہ وہ بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے خلاف مزید سخت سے سخت پالیسیاں مرتب کرے اور ان پر عملی جامہ پہنائے تاکہ اندرونی مخالفت اور صیہونی آباد کاروں کی تنقید سے نجات حاصل کرے لیکن موجودہ حالات میں بن گویر کے لئے ایسا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ بن گویر نے فلسطین کے مظلوم عوام پر ظلم کا شکنجہ مزید مضبوط کرنے اور اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے غاصب صیہونی حکومت کو جو تازہ ترین مشورے اور تجویزات پیش کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی مزید اراضی پر صیہونی آباد کاروں کا قبضہ یقینی بنانے کے عمل کو تیز کیا جائے اور باقی ماندہ فلسطینی عوام کے گھروں کو مسمار کیا جائے۔ حتیٰ بن گویر اس حد تک بوکھلاہٹ کا شکا ر ہو چکے ہیں کہ سی ایریا میں رہنے والے فلسطینیوں کو صحت کی سہولیات دینے پر بھی پابندی کی سفارشات کی ہیں۔

غاصب صیہونی حکومت کے اس شکست خوردہ قومی سلامتی کے وزیر بن گویر نے فلسطینیوں کو صلاح دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلحہ ترک کردیں لیکن دوسری طرف آئے روز فلسطینی مزاحمت کاروں کی کاروائیوں نے اپنی کاروائیوں کے ذریعہ بن گویر کے مشوروں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے اور فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ فلسطینی غیور عوام ایک طویل مدت سے غاصب صیہونی دشمن کا مقابلہ کرتے آئے ہیں اور اب موجودہ حالات میں یہ جدوجہد فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے کہ جہاں دشمن خود فلسطینیوں سے اسلحہ رکھنے کی التجاء کرتا ہوا نظر آتا ہے حقیقت میں یہی فلسطین اور القدس شریف کی آزادی کی نوید ہے۔