اسرائیل سے نفرت، ایک مثال
فاران: لیبیا کے عوام کے شدید احتجاج کے بعد لیبیا کی وزیر خارجہ کو صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی وجہ سے وزارت سے معطل کر دیا گیا ہے۔ لیبیا میں جو کچھ ہوا، اس نے قدس کی قابض حکومت کے خلاف مغربی ایشیائی خطے کے لوگوں کے غصے اور بیزاری کی ایک بار پھر تصویر کشی کی ہے۔ یہ غصہ اس قدر ہے کہ صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ کے ساتھ لیبیا کے ایک عہدیدار کی غیر رسمی اور غیر منصوبہ بند ملاقات بھی قابل قبول نہیں ہے اور “نجلہ المنخوش” نے اس ملاقات کی قیمت اپنے عہدے سے معطل ہو کر چکائی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اتوار کو لیبیا کی وزیر خارجہ نجلا المنگوش سے اپنی ملاقات کا اعلان کرتے ہوئے کہا: “یہ ملاقات گذشتہ ہفتے اٹلی کے دارالحکومت روم میں ہوئی تھی۔” انہوں نے اس ملاقات کو تاریخی قرار دیا۔ اس خبر کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی لیبیا کے عوام نے ایک مظاہرہ کیا اور نجلہ المنگوش کی ایلی کوہن سے ملاقات کی مذمت کی۔ الزاویہ اور تاجورہ میں مظاہرین نے صیہونی حکومت کا پرچم بھی نذر آتش کیا۔ لیبیا کے عوام کا غصہ اس ملک کی وزیر خارجہ کی اپنے اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات پر ہوا ہے۔
لیبیا کے صارفین نے بھی سوشل نیٹ ورک پر اس ملاقات کی مذمت کی اور اسے غداری قرار دیا۔ لیبیا کی جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی نے ایک بیان میں زور دیا: “یہ خطرناک کارروائی ایک سرخ لکیر ہے، جسے عبور نہیں کیا جانا چاہیئے۔” عوام اور بعض سیاسی گروہوں کے احتجاج اور غصے کے بعد لیبیا کی قومی وحدت حکومت نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ “اس ملک کی وزیر خارجہ کو روم میں صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ سے ملاقات کرنے پر معطل کر دیا گیا اور تحقیقات کے لیے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔” اس نفرت کو پہلے بھی کئی بار دکھایا جا چکا ہے۔ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران صیہونی حکومت کے خلاف خطے کے عوام کی نفرت کا کھل کر حتیٰ اس حد تک اظہار کیا گیا کہ صیہونی میڈیا اور سیاسی حلقے بھی اس مسئلے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔
قطر اور سعودی عرب سمیت خطے کے مختلف ممالک کے لوگوں نے اسرائیلی میڈیا اور نامہ نگاروں سے بات کرنے سے انکار کر دیا اور مغرب اور تیونس کے تماشائیوں نے تو سٹیڈیم میں فلسطین کی حمایت کے لئے باقاعدہ نعرے لگائے۔ بلاشبہ اس نفرت کی وجہ غاصبانہ قبضے، نسل پرستی اور شدید تشدد ہے، جسے صیہونی حکومت فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ صیہونی حکومت جو مغربی ایشیائی خطے میں ایک جعلی حکومت ہے اور اس نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ صیہونی فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں پر قبضہ کرکے انہیں ملک بدر کرکے اس قبضے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ مسلسل آباد کاری اور نئی کالونیوں کی تعمیر اس قبضے کی ایک مثال ہے۔ مزید یہ کہ نسل پرستی اس حکومت کی ماہیت میں شامل ہے۔ موجودہ کابینہ، حتیٰ کہ صہیونیوں کے اپنے اعتراف کے مطابق، نسل پرستانہ رویئے کے لحاظ سے انتہائی سخت ترین کابینہ ہے۔
مسجد الاقصیٰ پر بعض وزراء کے پے در پے حملے اور اس مقدس مسجد کے صحن سے فلسطینی نمازیوں کو بے دخل کرنا صیہونی حکومت کی منظم نسل پرستی کی مثالیں ہیں۔ فلسطینیوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے خلاف حد سے زیادہ تشدد اور فلسطینی عوام کی روزانہ شہادت اور زخمی ہونا مغربی ایشیائی خطے میں اسرائیل کی غاصب حکومت کے خلاف رائے عامہ کی شدت میں ایک اور اہم عنصر ہے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ لیبیا کی وزیر خارجہ کی صیہونی ہم منصب سے ملاقات اور اس لیبیائی عہدے دار کی اپنے عہدے سے معطلی نیز لیبیا کے عوام کے غم و غصے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل بہت جلد ناکام ہوگیا ہے اور صیہونی حکومت کو اس حوالے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔
تبصرہ کریں