اسرائیل کی آخری سانسیں

بعض دیگر سکیورٹی اور فوجی شخصیات نے بھی کئی مواقع پر حکومت کے خاتمے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں اور سیاسی شخصیات نے بھی اس حکومت کے اندرونی بحرانوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے خطرے سے خبردار کیا۔ صیہونی حکومت کے تجزیہ کار اری شاویت ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے پہلے کہا تھا: "ہم واپسی کے نقطہ سے گزر چکے ہیں اور اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔"

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صیہونی حکومت کی خارجہ انٹیلی جنس سروس (موساد) کے سابق سربراہ “تامیر پردو” نے اعلان کیا ہے کہ یہ حکومت اپنے خاتمے کے قریب ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیراعظم “بنیامین نیتن یاہو” اور ان کی کابینہ کے خلاف مقبوضہ علاقوں میں لوگوں کے مظاہروں کو 31 ہفتے گزر چکے ہیں۔ یہ مظاہرہ تل ابیب اور مقبوضہ فلسطین کے 150 دیگر مقامات پر مسلسل 31ویں ہفتے سے جاری ہیں۔ نیتن یاہو کی کابینہ کا عدالتی اصلاحات کے منصوبے پر اصرار مقبوضہ علاقوں میں عوامی مظاہروں کی بنیادی وجہ ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں لاکھوں افراد کے مسلسل مظاہروں نے صیہونی حکومت کے بعض سنگین چیلنجوں اور خطرات کو مزید آشکار کر دیا ہے۔ سنگین خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ صیہونی حکومت کو ایک بے مثال سیاسی بحران کا سامنا ہے۔

چار سالوں میں اس حکومت نے پانچ پارلیمانی انتخابات کرائے ہیں، لیکن موجودہ کابینہ جو کہ تقریباً آٹھ ماہ سے وجود میں آئی ہے، ابھی تک بہت کمزور ہے اور کسی بھی وقت اس کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ درحقیقت صیہونی حکومت نے حالیہ برسوں میں کوئی مضبوط کابینہ نہیں دیکھی۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ مقبوضہ علاقوں میں سیاسی تقسیم کا عروج ہے۔ ایک اور اہم خطرہ یہ ہے کہ یہ حکومت تیزی سے اپنے اندر انتہاء پسندی اور نسل پرستی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس معاملے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کئی اہم سیاسی شخصیات ایسی کابینہ میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہیں، جہاں نیتن یاہو وزیراعظم ہیں۔ وہ نیتن یاہو کو سب سے بڑا باغی قرار دیتے ہیں۔

دوسری طرف نیتن یاہو جو اقتدار سے الگ ہونے پر آمادہ نہیں ہیں، ایسی شخصیات کے ساتھ اتحاد کی طرف بڑھے ہیں، جن کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے اور جنہیں اسرائیلی سماج میں نفرت انگیز شخصیات تصور کیا جاتا ہے۔ اقتدار میں ان کی موجودگی کی وجہ سے بھی 31 ہفتوں سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ اسرائیل کو درپیش ایک اور اہم خطرہ بڑھتی ہوئی سماجی تقسیم ہے۔ وسیع سیاسی تقسیم کے بعد، عوام نیتن یاہو کی کابینہ کے حامیوں اور مخالفین میں بھی تقسیم ہوگئے ہیں اور عملی طور پر حکومت کا سیاسی اور سماجی منظر واضح اور بڑھتی ہوئی دو قطبیت کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی نظام سے بھی عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ صیہونی حکومت کی وزارت خزانہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے گذشتہ ہفتے کے روز تل ابیب میں مظاہرین کے ہجوم میں تاکید کی ہے کہ اسرائیل حکومت عوامی خدمات کے حوالے سے ایک ناقابل بیان بحران میں پھنسی ہوئی ہے۔

ایک اور اہم خطرہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں سیاسی اور سماجی بحرانوں کی شدت کے نتیجے میں ریورس مائیگریشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کے چینل 12 کی طرف سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت عدالتی اصلاحات کی منظوری پر اصرار کر رہی ہے، جس کی وجہ سے تقریباً ایک تہائی اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کو چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کے خاتمے کے حوالے سے انتباہات بھی بڑھ گئے ہیں۔ موساد کے سابق سربراہ تامیر پاردو کا خیال ہے کہ “صیہونی حکومت نے خود کو تباہ کرنے کا طریقہ کار فعال کر دیا ہے اور وہ اپنے خاتمے کے قریب ہے۔”

بعض دیگر سکیورٹی اور فوجی شخصیات نے بھی کئی مواقع پر حکومت کے خاتمے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں اور سیاسی شخصیات نے بھی اس حکومت کے اندرونی بحرانوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے خطرے سے خبردار کیا۔ صیہونی حکومت کے تجزیہ کار اری شاویت ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے پہلے کہا تھا: “ہم واپسی کے نقطہ سے گزر چکے ہیں اور اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔”