اسلامی انقلاب کی استقامت کا اصل سبب
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: ہم دو عظیم شخصیات – امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) اور امام خامنہ ای – کی طرف پلٹتے ہیں؛ آج کے دور میں ایران کو مختلف قسم کی دشمنیوں کا سامنا ہے، اس کے باوجود یہ ملک مستحکم اور طاقتور ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟
اسامہ حمدان: اس مسئلے کے کئی عوامل ہیں لیکن میرے خیال میں تین عوامل زیادہ اہمیت رکھتے ہیں:
پہلا عامل اس بات پر ایمان و یقین ہے کہ آپ ان اصولوں پر کاربند رہیں گے جن پر آپ یقین رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ فتح خدا کے لئے ہے اور یہ تمام حساب و کتاب اس ایمان کے بعد کے مرحلے سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ اس سے پہلے مرحلے سے۔
دوسرا عامل، آپ کی استطاعت کی حد تک کوشش کرنا ہے اور خدا کسی کو اس کی برداشت سے باہر کسی کام پر مامور نہیں کرتا؛ اور حقیقت یہ ہے بہت ساری کوششیں کی جاتی ہیں اور ہم ان کے اثرات کو دیکھتے ہیں۔
تیسرا عامل، یقینا اقدام اور عمل میں مضمر ہے۔ انسان اپنی کوششوں کو بروئے کار لاتا ہے لیکن ساتھ ساتھ احتیاط بھی برتتا ہے، لیکن اقدام ایک مختلف مرحلہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ احتیاط کرنے والا شخص کامیاب بھی ہو جائے لیکن جو شخص احتیاط کرتا ہے وہ ترقی نہيں کرتا۔ ایران نے اپنی اقدار اور اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ایران نے شدیدترین بیرونی دباؤ کے باوجود فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے؛ اور یہ ایک بااثر طاقت بننے کی طرف بڑھتا رہا ہے؛ تاکہ مظلوموں کی حمایت کی راہ میں مسلسل آگے بڑھ سکے؛ اور میری رائے میں یہ وہ اہم ترین عوامل ہیں جو انقلاب کی ترقی اور تسلسل اور اس کے مقاصد کے حصول کا موجب بنے ہیں۔
ایران تمام تر دباؤ اور مشکلات کے باوجود، فلسطینی کاز کی حمایت بدستور جاری رکھے ہوئے ہے، اور حقیقی و موثر طاقت حاصل کرنے اور اپنی صورت حال کی بہتری کے لئے مؤثر اور پائیدار اقدامات کر چکا ہے۔ یہ ملک مظلوموں کے مسائل حل کرنے کی راہ پر مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ سب ایک عملی منصوبے کے تحت ممکن ہے چنانچہ یہ صرف ریزرو فورسز کا مسئلہ نہيں ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تین وجوہات شاید انقلاب کی مسلسل بیداری، تسلسل اور ترقی اور نشوونما اور بہت سارے مقاصد کے حصول میں سب سے اہم ترین عوامل میں شامل ہیں۔
سوال: جناب اسامہ حمدان! ہم سمجھتے ہيں کہ ایران کو اپنی ذاتی طاقت کی وجہ سے ہمیشہ اپنے دشمنوں کی طرف کے خطروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ کے خیال میں، کیا ایران کو اس کی طاقت کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، یا اس کے پرامن جوہری پروگرام یا میزائل قوت کی وجہ سے یا پھر یا پھر اس کی ذاتی دفاعی طاقت کی وجہ سے؟
اسامہ حمدان: سیاست میں ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے کہ مقابل فریق کی بیخ کنی کی جائے اور میرے خیال میں یہ اس طرح کی کوششیں انقلاب کی کامیابی کے بعد کے چند برسوں میں انجام پائی ہیں اور کچھ اندرونی غداروں کی مکاری اور چالبازی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے اس ہدف کے حصول کی کوششیں ہوئیں۔
جب مقابل فریق کو سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو اسوقت مستقل طور پر کمزور کرنے کی کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں اور یہ سب اسلامی انقلاب کے ساتھ بھی روا رکھا گیا اور دشمن نے ناکامی کے بعد ایران کو مستقل کمزور کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔
ایران نے یہ مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے کیا اور اپنی طاقت تعمیر کرنے میں کامیاب ہؤا۔ اس وقت دشمنوں کی تمام تر کوششیں ایران کی طاقت محدود کرنے پر مرکوز ہوئی ہیں تاکہ اسے ایک بہت بڑی اور بااثر طاقت بننے سے روک لیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دشمن اپنی کوششوں میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گا کیونکہ میرے خیال میں، جو اپنی بیخ کنی کے لئے ہونے والی کوششوں کو ناکام بنا سکے اور اس مرحلے میں کامیاب ہوسکے، ان کوششوں سے بھی نمٹ سکتا ہے جو اس کا محاصرہ کرنے، اسے کمزور کرنے اور اس کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کے لئے عمل میں لائی جاتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام تر معاندانہ کوششوں اور سازشوں میں ایک منفی پہلو پایا جاتا ہے جو ملکی سطح پر ایرانی قوم کی مشقت اور تکلیف دیئے جانے سے عبارت ہے اور اس سلسلے میں بہت بڑی جانفشانیاں ہوئی ہیں اور قربانیاں دی گئی ہیں لیکن دوسری طرف سے ایرانی قوم نے عزم و ہمت کے ساتھ یہ اٹل نتیجہ حاصل کرلیا ہے کہ جس قدر کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا سہارا لے گی اپنی طاقت میں اضافہ کرے گی اور یوں وہ ایسے اسباب اور ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے کہ جن میں وہ دشمن کا سامنا کرسکتی ہے اور دشمن اس کی حقیقی قوت کے سامنے اپنی تمام تر سازشوں میں ناکام ہوجائے۔
جاری۔۔۔۔
[…] تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے […]