اسلامی معاشرے پر امام حسین علیہ السلام کے قیام کے سیاسی و سماجی اثرات
فاران؛ گزشتہ سے پیوستہ؛
سوال: اسلامی معاشرے پر ظلم و جبر اور انحراف و بدعت کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کے سیاسی اور سماجی اثرات کیا تھے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے بعد غصبِ خلافت کے نتیجے میں یہ غلط تصور مسلمانوں کے درمیان ابھرا اور مستحکم ہؤا کہ جو بھی شخص جس انداز سے بھی، برسر اقتدار آتا ہے، وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کا خلیفہ اور جانشین ہے، چنانچہ اس کی اطاعت واجب ہے اور کسی کو بھی “کسی صورت میں بھی!” اس کے خلاف اٹھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ تصور اس معاشرے میں مستقر ہوچکا تھا جس نے اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو قبول نہیں کیا تھا؛ البتہ جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کے معتقد تھے، انہیں معلوم تھا کہ یہ حکمران شرعی اور دینی جواز کے بغیر برسر اقتدار آئے ہیں اور غاصب ہیں؛ اور معاشرے کو اس عظیم تباہی سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ لوگ خود ہی حق و حقیقت کا ادراک کریں اور اپنے آپ کو بھی، اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اور دین اسلام کو بھی اس قسم کی بدعت و انحراف سے نجات دلانا چاہئے؛ لیکن جو لوگ ولایت اہل بیت علیہم السلام پر یقین نہیں رکھتے تھے، وہ اس بدعت و انحراف کو قبول کرچکے تھے۔
چنانچہ معاویہ نے معاشرے پر طاری جہل و نادانی کا فائدہ اٹھایا۔ معاویہ سابقہ خلفاء کی طرح “خلیفۂ رسول اللہ” کہلانے پر راضی نہیں ہے بلکہ اپنے گماشتوں کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دلواتا ہے کہ اس کو “خلیفۃ اللہ” کہہ کر پکاریں! امام حسین علیہ السلا نے اپنے قیام کے ذریعے اس طرز فکر کو کچل کر باطل کر دیا یہ سمجھانے کے لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص عالم اسلام کی قیادت و خلافت کی سریر پر براجماں ہو بھی جائے تو وہ جو بھی چاہے کر گذرے، جو بھی انحراف چاہے اختیار کرے، اور جو بدعت بھی چاہے رائج کرے اور لوگوں پر لازم ہو کہ آنکھیں بند کرکے اس کی اطاعت کریں اور اس کے مد مقابل کھڑے ہونے سے اجتناب کریں۔ امام نے واضح کردیا کہ انحراف اور بدعات کے آگے سر خم نہیں کرنا چاہئے اور اس کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہئے، خواہ انسان تنہا اور بےیار و مددگار ہی کیوں نہ ہو۔
لہذا امام حسین علیہ السلام نے یہ درس عظیم اس امت کو دے دیا اور آپ کی شہادت اور کربلا کے جان سوز واقعے کے بعد نہ صرف پیروان اہل بیت اور امامت و ولایت کے معتقدین نے یہ درس سیکھ لیا بلکہ خوارج بھی، جو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دشمن تھے اور امویوں نے انہیں اپنی فاسد حکومت میں اپنی جانب مائل کرلیا تھا، بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اور امویوں کے خلاف متعدد تحریکوں اور شورشوں نے سر اٹھایا اور حتی عبداللہ بن زبیر – جو بنی امیہ کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور خلافت کا دعویدار تھا، ابتداء میں یزید کے خلاف اقدام کرنے سے عاجز تھا – نے بھی امام حسین علیہ السلام کے دکھائے ہوئے راستے سے فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو اپنی جانب آنے کی دعوت دی اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی۔
اس کے بعد بھی جابر اموی اور عباسی حکومتوں نے مسلمانوں کو جتانا چاہا کہ وہ خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ الرسول ہیں اور آنحضرت کی سنت اور تعلیمات کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ان کے ان دعؤوں کو کبھی بھی پذیرائی نہیں ملی اور خلفاء کے ظلم و ستم کے خلاف متعدد تحریکوں کا سلسلہ جاری رہا، اور یہ تحریکیں اسی درس کا نتیجہ تھیں جو امام حسین علیہ السلام مسلمانوں کو سکھا چکے تھے۔
جاری
تبصرہ کریں