اسلام امن و سلامتی کا داعی

ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا آیا ہے اس میں اس طرح کی قرارداد پاس ہونا ضروری تھا۔ اگرچہ اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر ٹی ایس تریمورتی نے جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ ایسے مذہبی معاملات سے بالاتر رہے جو ہمیں امن اور ہم آہنگی کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آج کل ذرائع ابلاغ اسلاموفوبیا کے تحت دہشتگردی کے لفظ کا بکثرت استعمال کررہے ہیں اور بعض عناصر یہ ناپاک و ناکام سازشیں بھی کررہے ہیں کہ دہشتگردی کا سارا رشتہ اسلام سے ہے۔ یہ بات جان لینی چاہیئے کہ جہاں تشدد و بربریت ہو، وہاں اسلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جہاں اسلام ہو، وہاں تشدد کی ہلکی پرچھائیں بھی نہیں پڑسکتی ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا ضامن اور سرچشمہ اور انسانوں کے مابین محبت، امن و امان اور خیر سگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔ کائنات کے جملہ ادیان و مذاہب میں انسانی جان کے احترام و وقار اور امن و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کو اولیت دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کا درجہ سب سے عظیم ہے۔ قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلاؤ جبکہ تشدد کا خمیر ظلم و جور اور وحشت سے اُٹھتا ہے اور خونریزی و غارت گری سے اس کی کھیتی سیراب ہوتی ہیں۔

اسلامی تعلیمات کے نتیجے میں دنیا میں انسانی جان کے تحفظ کا حیرت انگیز منظر سامنے آیا اور دنیا میں بڑی بڑی سلطنتوں کے اندر انسانی جان کی ناقدری کے خوفناک واقعات اور ہولناک تماشوں کے سلسلے اسلام کی آمد کے بعد موقوف ہوگئے اور دہشت و خونریزی سے عالم انسانیت کو نجات ملی۔ انہیں تعلیمات کے باعث ایک مختصر مدت میں عرب جیسی خونخوار قوم تہذیب و شرافت کے سانچے میں ڈھل گئی اور احترامِ نفس و امن و سلامتی کی علمبردار ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی، جس کا نقشہ قرآن کریم نے کچھ اس طرح کھینچا ہے ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا‘‘۔ آج انہیں اسلامی اقدار کو بدنام کرنے کی ہر چہار جانب کوششیں جاری ہیں۔ مذہب اسلام نے تشدد و دہشتگردی کی ہمیشہ نفی کی ہے اور امن و سلامتی کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے۔ اسلام کسی بھی قسم کی دہشتگردی یا ظلم و تعدی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کا بدلہ تو لیا جاسکتا ہے، لیکن اگر مظلوم تجاوز کرگیا تو وہ بھی ظالم کی صف میں آجائے گا۔ یعنی بدلہ لیتے وقت یہ بات ملحوظ رہے کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے۔

دہشتگردی اور تشدد کے سلسلے میں اسلام کا موقف بالکل صاف اور واضح ہے۔ اسلام خونِ ناحق کا مخالف ہے، جس کی وعید قرآن کریم کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ’’جو شخص کسی نفس کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد پھیلانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا۔ آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مسلمان پوری کائنات میں اپنی دہشتگردی کے ذریعہ اسلام پھیلانا چاہتے ہیں، جبکہ قرآن نے ان باطل افکار کی تردید کی ہے۔ اسلام مذہبی عقائد اور اشاعتِ دین کے سلسلے میں نہایت انسان دوست اور اعتدال پسند ہے۔ جبراً کسی پر بھی کوئی چیز تھوپنے کی کسی کو اجازت نہیں دی ہے۔ اگر اسلام کا نام لے کر کہیں اور کبھی کوئی بھی دہشتگردی یا تشدد و بربریت کا مظاہرہ کرتا ہے تو حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مذہبِ اسلام سے ایک انحراف اور شریعتِ محمدیہ میں ایک تحریف کا فعل بد ہے۔ اسلام اذیت پسندی اور فساد انگیزی کا روادار نہیں ہے، اسلام میں صرف مسلم معاشرہ کے اندر کسی بھی اختلاف کو ختم کرنے کے سلسلے میں تشدد سے کنارہ کشی کا حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح یا ایک خطے یا سرزمین پر رہنے والے مختلف مذاہب و ادیان کے لوگوں کے ساتھ بھی اعلیٰ درجے کے حسنِ اخلاق کی ہدایت دی ہے۔

مذہب اسلام نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور ظالم کے روبرو حق کہنے پر زور دیا ہے اور اُسے ایک حقیقی مومن کا ضروری وصف قرار دیا ہے۔ اسلام نے جہاں انسانی جان کی حرمت کا اعلان کیا ہے وہیں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ فتنہ و فساد برپا کرنے اور انسانوں کا خون بہانے والوں کو معاف بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود دورِ حاضر میں جب بھی دہشتگردی موضوع بحث بنتی ہے، اسلام کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسلام كى تمام تعليمات سے یہ واضح ہوجاتا ہے كہ اسلام امن و سلامتى اور عدم تشدد كا دين ہے۔ اسلام بلاامتياز مذہب ’مسلم ہے يا غير مسلم‘ سب كے لئے امن و رحمت اور محبت و شفقت كا درس ديتا ہے۔ اسلام دہشتگردى اور تشدد پسندى كى اجازت نہيں دىتا اور اسلام پورى دنيا ميں اخلاق حسنہ كے زور سے ہی پھيلا ہے، تلوار اور دہشت گردى كے زور پر نہيں۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ہی امن و سلامتى كا سب سے بڑا داعى ہے۔

اب آیئے گزشتہ ماہ کی اہم پیشرفت کی جانب۔ گزشتہ مہینے کے اوسط میں مجلس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور عالمی سطح پر تحمل اور امن کے کلچر کو فروغ دینے کے مقصد کے طور پر متفقہ طور پر عالمی یومِ انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کی منطوری دی گئی۔ اس قرارداد میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں پر ہر قسم کے تشدد کے عمل اور عبادت گاہوں، مزاروں سمیت مذہبی مقامات پر اس طرح کے عمل کو سختی سے ناپسند کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ واقعاً اس قرارداد کا اتفاق رائے سے پاس ہونا قابل تحسین ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا آیا ہے اس میں اس طرح کی قرارداد پاس ہونا ضروری تھا۔ اگرچہ اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر ٹی ایس تریمورتی نے جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ ایسے مذہبی معاملات سے بالاتر رہے جو ہمیں امن اور ہم آہنگی کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔