اسلام کیخلاف استعماری اور صیہونی سازشیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: دین اسلام ہمیشہ سے ہی عالم کفر کے لئے ایک چیلنج رہا ہے۔ اس چیلنج کی جہاں بہت ساری وجوہات ہیں، وہاں ایک بنیادی ترین وجہ یہ ہے کہ اسلام کا آفاقی درس ظلم و جبر سے نبرد آزمائی ہے، نہ کہ جبر و استبداد۔ جبکہ دوسری جانب طول تاریخ میں ہمیشہ استکباری قوتیں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہیں۔ مثال کے طور پر انبیاء علیہم السلام کے دور میں ہمیں نمرود، فرعون، شداد اور نہ جانے اس طرح کے کتنے ہی نمونے ملتے ہیں، جو اپنے اپنے زمانے میں استکباری قوت تھے۔ جیسا کہ ابھی ماہ محرم الحرام ہے اور تاریخی اعتبار سے ہم جانتے ہیں کہ اسی ماہ میں ہی پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسے جناب حضرت امام حسین (ع) اور ان کے خاندان کے افراد سمیت ان کے رفقاء کو اس وقت کے استکباری حاکم یزید لعین نے قتل کروایا تھا۔ دنیا بھر میں مسلمانان عالم آج بھی امام حسین (ع) اور آپ کے باوفا ساتھیوں اور رفقاء کی یاد مناتے ہیں۔
اسی طرح دور حاضر کی استکباری قوتوں کی شناسائی کرنی ہو تو ہمیں مغربی حکومتیں اس کی بہترین مثال کے طور پر ملتی ہیں۔ ان میں بھی جو سب سے زیادہ جبر و استبداد کی حکومت ہے، وہ امریکہ ہے۔ استکبار یعنی جبر کے ذریعے حکومت پر قائم رہنا اور عوام کو اپنا غلام سمجھنا، جبکہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ اللہ کی طرف سے دنیا میں انسانوں کے لئے امن و محبت کا پیغام لاتے رہے، جو استکباری نظام کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ بہرحال یہ بات طول تاریخ سے ثابت ہے کہ جبر اور محبت دو علیحدہ علیحدہ قوتیں ہمیشہ مدمقابل رہی ہیں۔ اسلام کے خلاف استکبار ی نظام کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو پیچھے دھکیل دیا جائے یا اسلام کو بالکل دیوار سے لگا دیا جائے، تاکہ استکباری نظام کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔
دور جدید میں اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف ایک گھناؤنی سازش جو استکباری و صیہونی نظام کی جانب سے جاری ہے، وہ دراصل دو طرح کی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مغربی دنیا کی حکومتوں نے جو استکباری اور استبدادی نظام پر قائم ہیں، انہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ حقیقی اسلام کو ایک طرف دیوار سے لگا دیا جائے اور اس کام کے لئے انہوں نے ہمیشہ نت نئے انداز کی سازشوں کو انجام دیا ہے۔ مثلاً اسلام محبت اور امن کا درس دیتا ہے تو استکباری مغربی حکومتوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اس خوبصورت تصور اور چہرہ کو بگاڑنے کے لئے دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا اور ان تمام گروہوں کو کسی نہ کسی طرح اسلامی ٹچ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کو دنیا کی نظروں میں سوالیہ نشان بنا دیں۔ اس عنوان سے تازہ ترین مثال حالیہ چند سالوں میں داعش کا وجود پیدا ہونا ہے۔
داعش کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اور امریکہ سمیت مغربی حکومتوں کی نہ صرف حمایت حاصل تھی بلکہ مغربی ممالک سے دہشت گرد ذہنیت کے مالک لوگوں کو اس گروہ میں شامل کیا گیا اور پھر مسلمانوں کی سرزمینوں پر خون کی ہولی کھیلنے کے لئے چھوڑ دیا اور بعد ازاں اس سفاکیت کا خود پرچار کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی۔ دہشت گردی کے وجود کے بعد دنیا میں مغربی استکباری نظام نے اسلام سے متعلق ایک نئی اصطلاح کا استعمال شروع کیا اور روشن فکر اسلام کی اصطلاح عام ہوئی۔ روشن فکر اسلام کہتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی کوئی حیثیت نہیں۔ جیسا کہ انہوں نے دہشت گرد گروہوں کو ایجاد کرکے ان کے لئے حلال اور حرام کی تمیز کو ختم کیا۔ یعنی ایک طرف روشن فکری اور دوسری طرف شدت پسندی کو بیک وقت پروان چڑھانے کی ناپاک سازش کی گئی۔حالانکہ حقیقت میں ان دونوں ہی کا حقیقی اسلام سے کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔
درج بالا اسلام کی دونوں اقسام کے مقابلے میں ایک خالص اسلام ہے۔ خالص اسلام انسانوں کو آپس میں محبت اور امن کا درس دیتا ہے۔ خالص اسلام جبر کی نفی کرتا ہے۔ خالص اسلام عقلانیت پر مبنی ہے۔ خالص اسلام میں معنویت موجود ہے۔ خالص اسلام انسانوں کو غلامی سے نجات دلواتا ہے اور حریت اور آزادی کا پیغام دیتا ہے۔خالص اسلام حقیقت میں خدا کی بندگی کی طرف دعوت ہے۔ خالص اسلام کا وجود جبر و استبداد کے نظام یعنی استکباری و صیہونی نظام کی واضح مخالفت پر مبنی ہے۔ اسلام کے خلاف سازش کرنے والی استکباری و صیہونی قوتوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کو محدود کریں اور انہی میں سے کچھ عناصر یہ بھی خواہش کرتے ہیں کہ اسلام کو مکمل طور پر نابود کریں۔
مغربی اور استکباری قوتوں میں جو یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو محدود کریں تو انہوں نے معاشرے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے دنیا کی دیگر حکومتوں اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ اسلام کی ایک ایسی تعریف پیش کریں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام تو صرف نماز، روزہ اور اس طرح کی دیگر عبادات کرنے کا نام ہے۔ یعنی اجتماعیت اس طرح کے اسلام میں کوئی جگہ نہیں رکھتی۔ یعنی یہاں اسلام کے پیروکاروں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بس اپنی اپنی عبادت کرو، دوسروں کی طرف مت دیکھو، معاشرے میں مت دیکھو کہ کیا ظلم ہو رہا ہے، کیا نا انصافی ہے۔ مغربی اور استکباری قوتوں میں سے کچھ ایسے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ اسلام کو مکمل نابود کر دیا جائے۔ ان قوتوں میں صیہونی سرفہرست ہیں۔
انہوں نے اسلام کی ایک ایسی تعریف کی ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ دین کی کیا ضروت ہے؟ اس بحث کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدا کا وجود نہیں ہے، دین کی کیا ضرورت ہے؟ دین تو ایک افیون ہے، نشہ ہے، یعنی یہ دین کو انسانوں کے لئے مضر بنا کر پیش کرتے ہیں، تاکہ ان کا جبر و استبداد پر قائم کیا گیا استکباری و صیہونی نظام بلا مقابلہ قائم رہے اور انسانوں کو غلام بنا کر یہ انسانیت کی تذلیل کرنے میں مصرف رہیں۔ اس سوچ نے مسلم دنیا کے معاشروں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ایک ایسا انقلاب لاؤ، جس میں دین کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اگر ترقی کرنی ہے تو پھر سیکولر ہو جاؤ، جہاں دین کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس طرح کے انقلاب اور حکومتی سوچ میں یہ سوچ رائج کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دین آپ کا ذاتی معاملہ ہے، یعنی دین صرف آپ کی ذات تک محدود ہے۔
استکباری نظام نے ترقی اور اقتصاد کے کھوکھلے نعروں کی مدد سے عالمی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا دونوں مقامات پر اسلام کے خلاف اس سازش کو انجام دیا ہے۔ آج بھی اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کو اسی سازش کا سامنا ہے۔ آج امریکہ اور مغرب اسی روشن فکر اسلام کی قیادت کر رہے ہیں۔ آج امریکی ظالم استکباری نظام کا یہ نعرہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن کیسے؟ امریکہ نے امن قائم کرنے کا جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ ظلم پر مبنی ہے۔امریکہ نے اس عنوان سے اسلام رحمانی کی اصطلاح رائج کی ہے، یعنی دنیا بھر میں امن قائم کرو لیکن ظلم کے ذریعے سے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اس کی حمایت بھی ہو۔ ہم مشاہدہ کرچکے ہیں کہ ایسے کئی ایک مظالم جو دنیا بھر میں امریکی حکومت نے انجام دیئے، دنیا کی مختلف حکومتیں اس ظلم اور بربریت میں امریکی و صیہونی استکباری نظام کی حمایت میں کھڑی رہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف صیہونیوں کی سازشیں پے در پے ناکام ہو رہی ہیں، کیونکہ ان تمام تر باطل افکار کے مقابلے میں ایک ایسی مزاحمت اور حقیقی اسلام پائیداری کے ساتھ مقابلہ پر کھڑا ہے کہ جو دنیا میں امن و محبت کے قیام کی بات کرتا ہے، لیکن ظلم و جبر اور استبداد سے نہیں بلکہ عادلانہ بنیاد پر۔ یہی اصل میں حقیقی اسلام اور اس کی تعلیمات ہیں۔ یہ ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم اپنی نسلوں تک یہ حقائق پہنچائیں اور شعور بیدار کریں کہ مسلم دنیا کے عوام صیہونی و استکباری نظام کی جانب سے اسلام کے خلاف جاری سازشوں اور جنگ کا ادراک کریں اور اس کا مقابلہ کرکے اس کو شکست فاش دیں۔
تبصرہ کریں