افغانستان کی شکست سے یہودی ریاست پر مرتب ہونے والے اثرات
فاران؛ یہودی ریاست (اسرائیل)، کے حوالے سے، حالات کا جائزہ تین سطوح میں اہمیت رکھتا ہے:
1۔ دہشت گرد تنظیموں پر افغان صورت حال کے اثرات:
[صہیونی تھنک ٹینک نے دعوی کیا ہے کہ] گوکہ افغانستان پر طالبان کا تیز رفتار قبضہ اور اس تصور کی ترویج – کہ انھوں نے امریکہ کو شکست دی ہے – انتہاپسند دہشت گرد تنظیموں کے عزم کو تقویت پہنچا سکتی ہے، اور وہ اس کے نتیجے میں مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں اسرائیلی اہداف کے خلاف، اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی سکتی ہیں! (1) تاہم اسرائیل مخالف دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، چنانچہ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بموجب ان تنظیموں کے تجزیئے اور اہداف کے سلسلے میں ان تنظیموں کے رویئے میں کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا!
2۔ ایران کا علاقائی طرز عمل:
افغانستان کی صورت حال ایران کو مشکل صورت حال سے دوچار کرتی ہے۔ ایران امریکی انخلاء کو ایک مثبت واقعہ سمجھتا ہے، کیونکہ اس ملک کی خواہش ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی موجودگی کا خاتمہ کرے؛ تہران کو امید ہے کہ دوسرے مرحلے میں عراق سے بھی امریکی انخلاء عمل میں آئے؛ کیونکہ اس صورت میں ایران کے پچھواڑے کی سلامتی کو تقویت پہنچتی ہے نیز ایران کے لئے یہ [شہید جنرل] قاسم سلیمانی کے “تزویراتی انتقام” کے زمرے میں آئے گا۔ امریکی پسپائی کا یہ سلسلہ ایران کے اس عزم کو تقویت پہنچاتا ہے کہ “امریکیوں پر زیادہ سے زیادہ دباؤ لایا جائے اور اس کو “قائل کیا جائے” کہ عراق سے انخلاء پر مبنی اپنے عزم پر عملدرآمد کرے۔ دوسری طرف سے، اگر ایران سے درخواست کی جائے کہ افغانستان میں مداخلت اپنی مداخلت میں اضافہ کرے (جس کا امکان فی الحال دکھائی نہیں دے رہا) تو اس ملک کو (خاص طور پر سپاہ پاسداران کی طرف سے) وسائل کی ضرورت ہوگی، اور بظاہر اس طرح کے وسائل اس کے پاس نہیں ہیں اور اگر اس طرح کے وسائل فراہم بھی ہوں پھر بھی اس طرح کی مداخلت ایران کی علاقائی سرگرمیوں کو نقصان پہنچائے گی۔
3۔ اسرائیل امریکہ تعلقات
افغانستان سے ملنے والی تصاویر کے باوجود – جنہیں افغانستان سے امریکہ کے فرار کا مطلب لیا جا رہا ہے – یہ توقع نہیں کی جارہی ہے کہ – صدر بائیڈن کے بقول “لامتناہی فوجی تنازعات سے نکلنے” اور مشرق وسطی میں فوجی موجودگی کم کرنے – کے امریکی عزم میں تبدیلی آئے گی۔ علاقے کے بڑے کھلاڑیوں کو یقین ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے مشرق وسطی کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے اب امریکہ اس علاقے کے معاشی اور عسکری شعبوں میں سرمایہ کاری کی طرف کم ہی مائل ہوتا ہے۔ یہ امریکی رویہ علاقائی ممالک کو مجبور کرتا ہے کہ اپنے جائزوں اور رویوں کی تجدید کریں اور امریکہ کے بارے میں اپنی سوچ کو نئے تقاضوں کے سانچے میں ڈھال دیں۔ یہ تفکر شاید علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کی تئیں امریکی مدد و حمایت کے بارے میں بھی ان کے تجزیوں کو متاثر کرے۔
لگتا ہے کہ امریکہ اپنے فوجی وسائل کو ایران کے مقابلے کے لئے استعمال نہیں کرے گا
صہیونی تھنک ٹینک نے مزید لکھا: علاوہ ازیں کہ اسرائیل کو عینی اور عملی لحاظ سے اپنے اقدامات کے لئے اس امریکی منصوبہ بندی کا پورا ادراک کرکے، منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خواہ اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ اتحاد اور دوستی اور اس کی حمایت میں سچا بھی ہو، پھر بھی یہ امکان بہت کم ہے کہ یہ ملک مستقبل میں اپنے فوجی وسائل کو اس علاقے کے چیلنجوں – بالخصوص ایران کی پالیسیوں سے جنم والے چیلنجوں – سے نمٹنے پر صرف کرنا چاہے گا۔ تاہم مشرق وسطی سے انخلاء کا امریکی رجحان شاید اسرائیل کی قدر و قیمت کے حوالے سے امریکی تجزیوں کو تقویت پہنچائے، اور امریکی پالیسیوں میں اسرائیل ایسی ریاستوں کے زمرے میں شمار کیا جائے جو علاقے میں امریکی مفادات کے حصول میں ممد و معاون ہوسکتی ہے!
………
رپورٹرز کا تعارف:
– شیمون اشتائن (Shimon Stein) یہودی ریاست کے انسٹی ٹیوٹ برائے مطالعاتِ قومی سلامتی (Institute for National Security Studies [INSS]) کا سینئر ریسرچ ممبر ہے۔ وہ بیرونی خدمات کے شعبے میں طویل عرصے تک مصروف عمل رہنے کے بعد اس انسٹی ٹیوٹ سے جا ملا۔ وہ 2001ء سے 2007ء تک جرمنی میں صہیونی ریاست کا سفیر تھا۔ اس سے پہلے وہ اسلحے کے عدم پھیلاؤ، تخفیف اسلحہ، ہتھیاروں پر کنٹرول اور علاقائی سلامتی جیسے اداروں میں غاصب ریاست کا رکن تھا؛ اور صہیونی وزارت خارجہ میں آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ (Commonwealth of Independent States) نیز مرکزی اور مشرقی یورپ کے امور کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا۔ اشتائن وزارت خارجہ کے واشنگٹن، جرمنی اور صہیونی ریاست کے اندر، دوسرے عہدوں پر بھی فائز رہا اور اور ہتھیاروں کے کنٹرول کے سلسلے میں ہونے والے کثیر الملکی مذاکرات میں اسرائیل کا ایلچی تھا۔ اشتائن فی الحال بین الاقوامی مشیر کے طور پر سرگرم عمل ہے۔ وہ حالات حاضرہ پر مضامین لکھ کر جرمن اور امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع کرتا ہے۔
– ایلداد شاویت (Eldad Shavit) صہیونی عسکری انٹیلجنس اور وزیراعظم کے دفتر میں طویل عرصہ سرگرم رہنے کے بعد سنہ 2017ء کے اوائل میں سینئر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے INSS سے جا ملا۔ ریزرو کرنل شاویت نے یہودی فوج میں اپنے آخری عہدے کے طور پر ادارہ تحقیقات کا معاون سربراہ بنا اور وزیر اعظم کے دفتر میں بھی سنہ 2011ء سے سنہ 2015ء تک ادارۂ تحقیقات کا سربراہ تھا۔ وہ ان تمام مناصب میں علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں معلوماتی [انٹیلیجنس] تجزیوں کی تیاری پر مامور تھا۔ سنہ 1994ء اور 1955ء میں وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری کے دفتر نیز وزیر دفاع کے دفتر میں انٹیلجنس کے شعبے کا سربراہ تھا۔ شاویت تل ابیب یونیورسٹی سے مشرقی ایشیا کے مطالعے میں ایم فل اور مشرق وسطی کے مطالعے میں ایم اے کرچکا ہے۔
……۔
1۔ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا خالق امریکہ اور حامی اسرائیل، امارات اور سعودی عرب ہیں، اور ان کی تشکیل کا مقصد صہیونی مفادات کا تحفظ ہے چنانچہ یہ دعوی مضحکہ خیز ہے کہ وہ کبھی صہیونی مفادات کو بھی نشانہ بنائیں گی!
تبصرہ کریں