امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کے اہم پیغام کے قابل غور گوشے

 رہبر انقلاب اسلامی نے امام رضا علیہ السلام کے سلسلہ  اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کو ایک مستحسن عمل قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ’’  اس طرح کے پروگرام ہوتے رہنا چاہیے  اسلئے کہ ہم ائمہ علیہم السلام کی معرفت کے سلسلے میں کمزوریوں اور خامیوں میں مبتلا ہیں‘‘

فاران:  ۱۱ ذی قعدہ  کی تاریخ  عالم آل محمد امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت سے منسوب ہے ، یوں تو امام رضا علیہ السلام کی حیات طیبہ پر مختلف زایوں سے لکھا اور پڑھا گیا ہے دانشوروں اور محققین نے آپ کی زندگی سے متعلق مختلف گوشوں پر   اپنے اپنے انداز میں قلم فرسائی کی ہے  لیکن امام رضا علیہ السلام کی زندگی کو آج اس رخ سے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ  ہم ان گوشوں کو بیان کریں  جن کا تعلق  ہمارے کردار کی تعمیر و معاشرے  کی فلاح و بھبود سے  بہت گہرا ہے  او ربراہ راست ہے  اسی کے ساتھ یہ  بھی ضروری ہے کہ امام  علیہ السلام کی زندگی سے ہم اس طرح آشنا ہو سکیں کہ  یہ وہ ہستیاں ہیں جنکی زندگی کے  گہر بار نقوش ہمارے لئے کیمیا کی حیثیت رکھتے ہیں  چنانچہ امام رضا علیہ کی ودلات با سعادت کے موقع پر  رہبر انقلاب اسلامی نے  امام  رضا علیہ السلام کے سلسلہ سے ہونے والی ایک  بین الاقوامی کانفرنس  کےعلمی بورڈ سے ملاقات میں کچھ اہم گوشوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو ہم سبھی کے لئے قابل غور ہیں  آپ نے  بین الاقوامی کانفرنس کے علمی بورڈ سے ملاقات[1] میں  نکات کو بیان کیا ان میں سے کچھ  اہم یہ ہیں :

کانفرنس اور سیمینار کا انعقاد بہت مستحسن عمل :

رہبر انقلاب اسلامی نے امام رضا علیہ السلام کے سلسلہ  اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کو ایک مستحسن عمل قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ’’  اس طرح کے پروگرام ہوتے رہنا چاہیے  اسلئے کہ ہم ائمہ علیہم السلام کی معرفت کے سلسلے میں کمزوریوں اور خامیوں میں مبتلا ہیں‘‘[2]  رہبر انقلاب اسلامی کی اس فرمائش کی روشنی میں یہ بات قابل غور ہے کہ ائمہ طاہرین علیھم  السلام کی  زندگی سے  متعلق مختلف واقعات ہمارے سامنے بیان ہوتے ہیں لیکن اکثر  گنے چنے معدودے  واقعات ہمارے  سامنے  پیش کئے جاتے رہتے ہیں جن سے احساس ہوتا ہے کہ وہ باتیں جنکا تعلق معرفت امام ع سے ہے کم بیان ہوتی ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان معارف پر  مختلف کانفرنسوں میں گفتگو ہو جن کی روشنی میں ہمارا دل نورانی ہو اور ہم امام علیہ السلام کی زندگی سے متعلق معرفت کی خامیوں کا ازالہ کر سکیں۔

معجزے بیان کرنا اور زندگی کو معجزہ بنانا دونوں میں بہت فرق:

ہمارے  معاشرے میں جب بھی ائمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی کی بات ہوتی  ہیں تو پردہ ذہن پر چند معجزات ابھر کر سامنے آتے ہیں  بچپن سے لیکر جوانی اور بڑھاپے تک ہم انہیں معجزوں کو سنتے رہتے  ہیں  ہمارے یہاں  ائمہ طاہرین علیھم  السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر مختلف محفلیں  بھی ہوتی ہیں  ، قصیدے بھی خوب لکھے  جاتے ہیں الحمد للہ  معاشرے میں  مختلف تقاریب ہوتی ہیں محفلیں ہوتی ہیں مقاصدے ہوتے ہیں طرحی و غیر طرحی محفلیں ہوتی ہیں ، ہمارے یہاں تقریبا ہر امام  ع  کی ولادت کے موقع پر جشن و سرور کی محفلوں کا انعقاد ہوتا ہے  دور دور سے شعراء کرام تشریف لاتے ہیں  نذر و نیاز و شیریں  و شربت  وسترخوان کی فروانی ہوتی ہے   مومنین کرام  ہر طرح  سے اپنی اپنی بساط بھر  ائمہ طاہرین علیھم السلام کی ولادتوں کے موقع پر خوب خوب خرچ کرتےہیں  لیکن اگر ہم اپنے آپ سے پوچھیں  کہ کسی بھی امام ع کی ولادت کے سلسلہ سے ہونے والی طرحی محفل یا جشن کے بعد ہماری معرفت میں کتنا اضافہ ہوا  تو سوال کا جواب مشکل ہو جائے گا اس لئے کہ گہرائی کے ساتھ ائمہ طاہرین علیھم السلام کی حیات طیبہ پر روشنی ہی نہیں ڈالی گئی ہے معجزات کو تو خوب خوب بیان کیا گیا ہے لیکن زندگی کے ان پہلووں کو  کم ہی اجاگر کیا گیا ہے  جن پر توجہ کر کے انسان تعلیمات ائمہ طاہرین علیھم السلام کی روشنی میں  اپنی زندگی کو معجز نما بنا لے اسکی زندگی خود معجزہ بن جائے رہبر انقلاب اسلامی نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے ’’ ائمہ طاہرین علیھم  السلام کے سلسلہ سے   کبھی کسی پہلو پر غیر مستند انداز میں حد سے زیادہ توجہ دی گئی جبکہ  دوسرے پہلؤوں سے غفلت برتی گئی ہے  بسا اوقات تو توجہ ہی نہیں کی گئی ہے ، بس ظاہری امور اور ظاہری چیزوں پر توجہ دی گئی ہے میری نظر میں شیعہ ہونے کی حیثیت سے سے ہماری بڑی ذمہ داریوں میں  یہ ہے کہ اپنے ائمہ طاہرین علیھم السلام  کا دنیا میں تعارف کرائیں بعض ائمہ جیسے امام حسین علیہ السلام، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا کچھ پہلووں  سے تعارف کرایا گيا ہے، دوسروں نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے، کہا ہے اور کسی حد تک ان کا تعارف  غیر شیعہ دنیا اور غیر اسلامی دنیا میں موجود ہے لیکن اکثر ائمہ علیہم السلام کو پہچنوایا  ہی نہیں گيا ہے۔ امام حسن علیہ السلام اتنی عظمتوں کے باوجود ناشناختہ ہیں۔ حضرت امام موسی کاظم، امام علی نقی، امام جعفر صادق علیہم السلام اتنے  عظیم نظام    اور غیر معمولی کار کردگی  کے باوجود دنیا میں ناشناختہ ہیں[3]‘‘

 ائمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی کے تین اہم پہلو :

رہبر انقلاب اسلامی نے  ائمہ طاہرین علیھم السلام کی  زندگی کے مختلف پہلووں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’  ائمہ طاہرین علیھم السلام کی  زندگی کے بارے میں تین پہلؤوں سے کام کیا جا سکتا ہے۔۱۔  روحانی و الہی پہلو ۲۔ تعلیمات  و ارشادات کا پہلو ۔ ۳۔ سیاست کا پہلو [4]۔

ائمہ طاہرین کے اقوال و تعلیمات  کے بیان کی ضرورت :

’’مختلف موضوعات کے تعلق سے، زندگی کے مختلف مسائل کے بارے میں، انسان کی ضرورت کے گوناگوں امور کے بارے میں۔ اخلاقیات، معاشرت، دین، احکام، ان کے بارے میں ہمارے ائمہ کے اقوال ہیں و نظریات کو بیان کرنا چاہیے ۔ ان پہلؤوں سے جن میں بعض کی آج دنیا میں ضرورت بھی ہے ہم غفلت برتتے ہیں۔ مثال کے طور پر حیوانات کی حمایت کا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ ہماری روایتوں میں اس موضوع پر ائمہ نے، جانوروں کا خیال رکھنے اور جانوروں کی حمایت کے بارے میں کتنی بحثیں کی ہیں۔ اگر اسے دنیا میں  پیش کیا جائے، بیان کیا جائے، ان کی شناخت کرائی جائے تو واقعی یہ بہت اہم چیز ہوگی۔ اس کے بارے میں ہم میں سے کوئی کب سوچتا ہے، ہم میں کون ہے جو اس موضوع پر توجہ دے رہا ہے؟  [5]‘‘

معار ف کی خالص شراب :

رہبر انقلاب اسلامی ایک فارسی شعر کا مضمون بیان کرتے ہوئے  جس میں خالص شراب کی بات کی گئی ہے فرماتے ہیں :

’’اس  خالص شراب کا کیا فائدہ جو ساغر میں نہ آ سکے اور صراحی میں ہی قید رہے ہم نے اپنی اس خالص شراب کو، زندگی کی معرفتوں کی اس خالص شراب کو جو ائمہ سے ملی ہے اسے صراحی   کے اندر رکھا ہے اور اس کے منہ  پر ایک اینٹ بھی  دھر دی ہے ، پرانے زمانے میں صراحی  کے منہ پر اینٹ رکھ کر اس کا منہ بند کر دیا کرتے تھے۔ ہم نے یہ کام کیا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسے آج کی رائج زبان میں صحیح روش کے ذریعے دنیا میں پھیلانا چاہئے[6]‘‘ یقینا یہ بہت اہم ہے کہ وہ روایات جو ہماری حدیثی و روائی کتب میں ہیں و ہ سبق آموز واقعات جنہیں ہمارے بزرگوں نے  تمام تر مشکلات کے باوجود آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا ہے ایسا نہ ہو اس پر خزانے پر جہالت کا پتھر رکھا رہے اور ہم چند ایک تکراری واقعات کو بیان کرنے کے سوچیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا ۔

مناسب زبان کا استعمال :

پیغام کوئی بھی ہو شایستہ و سلیس زبان پیغام رسانی  میں اہم کردار کی حامل ہے ، اچھا پیغام بھی غلط و ناروا زبان کے استعمال کی بنیاد پر اپنی افادیت کھو ددیتا ہے  ۔معارف اہلبیت کو لوگوں تک پہچانے کے لئے سلیس و آسان زبان کا استعمال  بہت ضروری ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ  آج دنیا بھر میں اسلامی معارف اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کے تعلیمات کو پہچانے کے لئے مناسب زبان کے استعمال کی ضرورت ہے  آپ فرماتے ہیں :

’’دور حاضر کی زبان میں ہمیں معارف کو  منتقل کرنا ہے ، غیر شیعہ مخاطب افراد، بلکہ شیعوں کے لئے بھی، ہمارے جوانوں میں بھی بعض ایسے ہیں جو ان مطالب و مفاہیم سے اتنے ہی دور ہیں جتنا غیر شیعہ اور غیر مسلمان دور ہیں، انہیں کوئی اطلاع نہیں ہے، ان چیزوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے ‘‘ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ ‘‘ [7] اگر یہ کام ہو تو صرف کانفرنس اور تقریر وغیرہ تک محدود نہیں رہے گا، اس کا باقاعدہ قابل مشاہدہ فائدہ نظر آئے گا‘‘۔ اب ہم سب پر لازم ہے اگر کسی کو گرافیک آتی ہے تو اپنا ہنر استعمال کرے کسی کو  انیمیشن  میں مہارت ہے تو وہ  انیمیشن بنائے کوئی  کہانیاں لکھ سکتا ہے تو کہانی لکھے کسی کو بچوں کی زبان پر عبور ہے تو بچوں کے لئے  اسلامی کہانیاں لکھے اس طرح سے ہر طبقے تک  ہم اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اگر  مذکورہ مہارتیں ہمارے پاس نہیں ہیں تو   ان لوگوں کو سپورٹ کریں جو پہلے سے یہ کام کر رہے ہیں  ایسے ادارے موجود ہیں جو بڑی محنت و لگن سے کام کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس فنڈ کی کمی ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے تو کسی ایک پراجیکٹ کو  اپنے  ذمہ لے لیں چاہیں وہ نوجوانوں سے متعلق ہو یا خواتین و بچوں سے  یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے ائمہ طاہرین کو دنیا بھر میں متعارف کرا سکتے ہیں اور یہ ہماری  اولیں ذمہ داری ہے یقینا  سنجیدگی کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے تو  ان کریم ہستیوں کا  ابر کرم بھی ہم پر برسے گا اور ہمیں خود اپنی زندگی میں اس کے آثار نظر آئیں گے ۔

غیر مسلم  بھائیوں کے ساتھ طرز سلوک :

ہم جس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں ہزاروں اور لاکھوں تہذبیں پروان چڑھ رہی ہیں مختلف مذاہب کے ماننے والے چین و سکون کے ساتھ  رہ رہے ہیں  ایسے میں ہماری توجہ اس بات پر بھی رہنا چاہئے کہ  ہم دیکھیں ائمہ طاہرین علیھم السلام کے تعلیمات میں  ہم سے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ  کس طرح کے برتاو کا مطالبہ کیا گیا ہے قرآن ہم سے کس طرز سلوک کو مطالبہ کر رہا ہے اس سلسلہ سے بھی رہبر انقلابی اسلامی  فرماتے ہیں : ’’معاشرت کے امور، غیر شیعہ اور غیر مسلم سے روابط کے بارے میں جو باتیں ہیں، اس بارے میں ہماری روایتوں میں بہت ساری باتیں موجود ہیں، قرآن کریم کی روشنی میں  شیعوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کو بیان کرنے کی ضرورت ہے  جیسا کہ قرآن کریم میں ہے «لايَنْھاكُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّين‏»[8]  یعنی خدا نے ان لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا  برتاو کرنے سے  جو  دین میں تم سے لڑائی نہیں کرتے جھگڑا نہیں کرتے ان سے تم تعلق رکھ سکتے ہو  رہبر انقلاب اسلامی نے یہاں پر جس گوشے کو بیان کیا ہے وہ بہت اہم ہے  آپ اس ملک کے موجودہ حالات  میں دیکھیں یہ قرآن کریم کی کتنی خوبصورت آیت ہے :

لا يَنْهاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطينَ [9]

روایت میں ہے کہ دو قبلیوں کے سلسلہ سے یہ آیت نازل ہوئی دو ایسے قبیلے جنہوں نے حضور ص سے جنگ نہیں کی اور مصالحت کر لی [10]

سورہ ممتحنہ کی آیت اور ہماری ذمہ داری :

سورہ ممتحنہ کی مذ کورہ  آیت کے پیش نظر ہماری ذمہ داری واضح ہے کہ امن پسند غیر مسلم حضرات چاہے وہ کسی بھی مذہب سے متعلق کیوں نہ ہوں ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ ہمیں  انکے ساتھ  اچھا سلوک کرنا ہے عدل و انصاف کے ساتھ بقاء باہمی کے نظریہ کے تحت مل جل کر رہنا ہے یہ بہت اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے ۔  آج جب دنیا میں ہر طرف  تصادم و ٹکراو کا ماحول ہے ، غزہ و فلسطین سے ہر دن دل دہلا دینے والی خبریں آ رہی ہیں ایسی فضا میں ان تعلیمات کو عام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس سے دنیا میں امن و امان قائم ہو لوگ اپنے اپنے عقیدے اپنے مذاہب کے ساتھ آزادی کے ساتھ جی سکیں جیسا کہ ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام کے مختلف ادوار زندگی میں ملتا ہے ، امید ہے کہ  معصومین علیھم السلام کی زندگی کے رہنما اصولوں کے تحت   ہم  دنیا میں پیغام و امن و سلامتی پہچانے کا سبب  بنیں گے  انشاء اللہ

 

[1] ۔ https://www.leader.ir/fa/speech/27216/%D8%AF%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B6%D8%A7%DB%8C-%D9%87%DB%8C%D8%A6%D8%AA-%D8%B9%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D9%86%D8%AC%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D9%86%DA%AF%D8%B1%D9%87-%DB%8C-%D8%AC%D9%87%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B1%D8%B6%D8%A7-%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D9%84%D8%B3-%D9%84%D8%A7%D9%85

[2] ۔ ایضا

[3] ۔ ایضا

[4]  ایضا

[5]  ایضا

[6] ۔ https://www.leader.ir/fa/speech/27216/%D8%AF%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B6%D8%A7%DB%8C-%D9%87%DB%8C%D8%A6%D8%AA-%D8%B9%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D9%86%D8%AC%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D9%86%DA%AF%D8%B1%D9%87-%DB%8C-%D8%AC%D9%87%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B1%D8%B6%D8%A7-%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D9%84%D8%B3-%D9%84%D8%A7%D9%85

[7] ۔ ایضا

[8] ۔ ممتحنه ۸

[9] ۔ ایضا

[10] ۔ ابن‌عبّاس (رحمة الله علیه)- نَزَلَ قَوْلُهُ لَا یَنْهَاکُمُ اللهُ … فِی خُزَاعَهْ وَ بَنِی مُدْلِجٍ وَ کَانُوا صَالَحُوا رَسُولَ اللهِ (صلی الله علیه و آله) عَلَی أَنْ لَا یَلُومُوا وَ لَا یُعِینُوا عَلَیْهِ أَحَداً.

ابن‌عبّاس (رحمة الله علیه)-  لایَنْهاکُمُ اللهُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَ لَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَیْهِمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمقْسِطِینَ،.

تفسیر اهل بیت علیهم السلام ج۱۶، ص۱۹۶

بحرالعرفان، ج۱۶، ص۶