امریکہ اسرائیل تعلقات اور نئے چیلنج

امریکی ایوان نمائندگان میں خاص طور پر ریپبلکنز کی پوزیشن پر غور کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اور یوکرین کو دی جانے والی امداد میں فرق کرتے ہوئے نیز بائیڈن کی جانب سے ویٹو کرنے کی دھمکی کی وجہ سے اسرائیل کو 14.3 بلین ڈالر کے امدادی منصوبے کی منظوری اتنی اسان نہیں ہوگی، پہلے اس منصوبے کی منظوری سینیٹ میں روک دی جائے گی، جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے۔

فاران: امریکی صدر جو بائیڈن نے غاصب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ قیدیوں کے معاملے کو حل کرنے کے لیے تین دن کے لیے غزہ پر حملے بند کر دیں۔ اس سلسلے میں امریکی صدر نے کہا ہے”کل، انہوں نے بینجمن نیتن یاہو سے حملے کو روکنے کے لیے کہا، کیونکہ حملے تین دن تک رکنے سے غزہ میں کچھ یرغمالیوں کو آزاد کرانے میں مدد مل سکتی ہے۔” اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بائیڈن کی تین روزہ جنگ بندی کی درخواست مسترد کر دی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی امریکہ کی مخالفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دھمکی دی کہ “میں نہیں جانتا کہ حماس کے خاتمے کے بعد کیا ہوگا، لیکن حماس کے خاتمے سے کم کسی چیز پر جنگ ختم نہیں ہوگی۔” نیتن یاہو نے جنگ کے جاری رہنے پر زور دیا اور دعویٰ کیا کہ “ہمیں حماس کو تباہ کرنے کے مشن کے اختتام تک صبر کی ضرورت ہے اور ہم آدھی فتح نہیں چاہتے۔”

بائیڈن کی تین روزہ جنگ بندی کی درخواست کی نیتن یاہو کی واضح مخالفت ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی حکومت اپنے قریب ترین اتحادی امریکہ کو بھی اہمیت نہیں دیتی اور اپنے مطلوبہ اہداف کے لئے امریکیوں کو صرف استعمال کرتی ہے۔ بائیڈن نے غزہ جنگ کے آغاز میں مقبوضہ فلسطین کا سفر کیا اور حماس کی طرف سے تل ابیب پر راکٹوں کی بارش میں نیتن یاہو سے ملاقات کی اور اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر امریکی صدر نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے واشنگٹن کے عزم کا بھی اعلان کیا، لیکن صیہونی حکومت کے وزیراعظم نے امریکی صدر کے جنگ بندی کے مطالبہ کی حمایت نہیں کی۔ امریکی صدر کی قیدیوں کو رہا کرنے کے مقصد کے ساتھ تین روزہ جنگ بندی قیدیوں کی سلامتی کے حوالے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے، لیکن نیتن یاہو کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان ایک نئے تنازع کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔ بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد سے دونوں کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے اور امریکی صدر نے نیتن یاہو کو دو طرفہ ملاقات کے لیے مدعو کرنے سے عملاً گریز کیا تھا۔ آخرکار، دونوں کی ملاقات 20 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئی۔ اگرچہ یہ دونوں سیاست دان ایک دوسرے کو طویل عرصے سے جانتے ہیں، لیکن بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخلے کے بعد انہیں تعلقات کی بہتری کے حوالے سے مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بائیڈن بارہا نیتن یاہو کی دائیں بازو کی انتہاء پسند حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔نتن یاہو کو وائٹ ہاؤس میں باضابطہ طور پر مدعو کرنے میں جو بائیڈن کے انکار اور نیتن یاہو کی کابینہ کی پالیسیوں بشمول “عدالتی تبدیلیوں” پر تنقید امریکی حکومت کے عدم اطمینان کی نشاندہی کرتی ہے۔

اس سے قبل بائیڈن حکومت نے صیہونی حکومت کی طرف سے 1967ء کی مقبوضہ زمینوں میں بستیوں کی توسیع پر بھی تنقید کی تھی، البتہ عملی طور پر اس نے اس عمل کو روکنے کے لیے تل ابیب کے خلاف کوئی اقدام یا دباؤ نہیں ڈالا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات اسٹریٹجک تعلقات ہیں اور واشنگٹن ہمیشہ صیہونی حکومت کے غیر مشروط حامی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ مزید یہ کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز اور اس کے نتیجے میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں غزہ میں 10 ہزار سے زائد افراد کی شہادت اور 24 ہزار سے زائد افراد کے زخمی ہونے کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے غاصب اسرائیل کو غزہ پر بمباری کے لیے گائیڈڈ میزائل اور گولہ بارود کی بڑی مقدار نیز دیگر امدادی سامان بھیجنا شروع کر رکھا ہے۔

اب ایک نئے اقدام میں واشنگٹن اسرائیل کو 320 ملین ڈالر مالیت کے کلسٹر بم بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ سپلائی صیہونی فضائیہ کی طرف سے غزہ پٹی میں مختلف اہداف کے خلاف ممکنہ حد تک انتہائی درست حملے کرنے کے مقصد سے کی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں ایک اور مسئلہ جس کا تذکرہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ اس مرتبہ پہلی بار صیہونی حکومت کو امداد لینے کے حوالے سے امریکی کانگریس اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے۔

امریکی ایوان نمائندگان میں خاص طور پر ریپبلکنز کی پوزیشن پر غور کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اور یوکرین کو دی جانے والی امداد میں فرق کرتے ہوئے نیز بائیڈن کی جانب سے ویٹو کرنے کی دھمکی کی وجہ سے اسرائیل کو 14.3 بلین ڈالر کے امدادی منصوبے کی منظوری اتنی اسان نہیں ہوگی، پہلے اس منصوبے کی منظوری سینیٹ میں روک دی جائے گی، جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے۔ اگر یہ منصوبہ سینیٹ میں منظور ہو بھی جاتا ہے تو وائٹ ہاؤس اسے ضرور ویٹو کر دے گا۔ یہ اقدام امریکہ اور صیہونی حکومت کے تعلقات کے لیے سخت دھچکا ثابت ہوگا۔