امریکہ اسرائیل تنازعہ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جنوری 2021ء میں امریکی ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے، واشنگٹن اور تل ابیب کے تعلقات بہت سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ جنوری 2023ء میں صیہونی حکومت کے دائیں بازو کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس کشیدگی کی اہم وجہ انتہائی دائیں بازو کے وزراء پر مشتمل کابینہ کی تشکیل اور نیتن یاہو کی طرف سے اس کی سربراہی ہے۔ مثال کے طور پر، نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات پر بائیڈن کی مخالفت کے بعد، نیتن یاہو کے حکومتی اہلکاروں نے اسے اسرائیل کے اندرونی معاملات میں واشنگٹن کی مداخلت قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں امریکہ اور اسرائیل کے اعلیٰ حکام کے درمیان وسیع پیمانے پر زبانی اور پروپیگنڈہ بحث بھی جاری ہے۔
صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ Bezalel Smotrich نے عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے واشنگٹن پر “فریب” اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ سموٹرچ نے کہا: افغانستان اور عراق میں امریکیوں اور ان کے اقدامات کے بارے میں دنیا جانتی ہے۔ انہیں انسانی حقوق کے بارے میں ہمیں تبلیغ نہیں کرنا چاہیئے۔ سموٹریچ کا تبصرہ اس وقت سامنے آیا، جب امریکہ نے اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر Itamar Ben-Guir کے فلسطینیوں کے بارے میں تبصرے کو “نسل پرستانہ بیان بازی” قرار دیا۔ امریکہ کی مذمت کے باوجود، بین گوئیر نے نہ صرف اپنے الفاظ پر معافی نہیں مانگی بلکہ پھر کہا ہے کہ ’’نہ صرف میں اپنے الفاظ واپس نہیں لیتا، بلکہ میں ایک بار پھر کہتا ہوں، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم امن کے ساتھ گھر لوٹیں اور امن کے ساتھ چلیں۔ ہمارا حق مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کی نقل و حرکت کی آزادی کے حق سے زیادہ ہے۔”
Smotrich اور Ben Guerr فلسطینی علاقوں میں آباد نئی آباد کاری کی حمایت کرتے ہیں اور عوامی طور پر مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو مقبوضہ فلسطین کے ساتھ الحاق کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے داخلی سلامتی کے صہیونی وزیر بین گوئر کے بیانات کو نسل پرستانہ بیانیہ قرار دیا ہے اور اسرائیلی وزیر خزانہ نے بھی امریکہ کو منافق قرار دیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فریق حق بجانب ہیں۔ دوسرے الفاظ میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے بارے میں صحیح حقائق بیان کئے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل کی نسل پرستانہ نوعیت ثابت شدہ ہے تو دوسری طرف انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ کے منافقانہ اور دوغلے اقدامات اور موقف کے بارے میں حقائق سب کے سامنے ہیں۔
بائیڈن حکومت اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات صیہونی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے مختلف تناؤ کا شکار ہیں، جن کا تعلق مقبوضہ فلسطین میں انتہائی انتہاء پسند جماعتوں سے ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی شمولیت کا نتیجہ تل ابیب واشنگٹن میں خلیج کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر دو انتہاء پسند وزراء، یعنی داخلی سلامتی کے وزیر Itmar Ben Gweir اور صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ Bezalel Smutrich کے موقف اور اقدامات کے بعد نمایاں ہوا ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی آباد کاری میں شدت بھی اس گروپ کی ہے۔
صہیونی اخبار Yediot Aharonot نے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان چار اہم مسائل کے حوالے سے لکھا ہے۔ ایران کا معاملہ، مسئلہ فلسطین، یوکرین کی جنگ اور عدالتی اصلاحات کا منصوبہ، یہ وہ چار اہم مسائل ہیں، جو حال ہی میں دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان موجودہ کشیدگی ٹیکنیک کی سطح پر ہے، حالانکہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو ہمیشہ امریکی صدور کی حمایت حاصل رہی ہے۔ خاص طور پر صیہونی حکومت کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور اپنے دفاع کے بہانے فلسطینیوں کو دبانے اور قتل کرنے کے تناظر میں اسرائیل کی جامع حمایت واشنگٹن کی پالیسیوں میں سرفہرست ہے۔
اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے صیہونی حکومت کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کے عزم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: “ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کے لیے تمام درکار ہتھیار مل جائیں۔” بائیڈن حکومت اور نیتن یاہو حکومت کے درمیان موجودہ تناؤ، زبانی حملوں اور اسرائیل کے اقدامات کی واضح مذمت کے باوجود، واشنگٹن کی حقیقی اور عملی پالیسی صیہونی حکومت کی مکمل حمایت ہے، جو کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں ہوسکتی۔
تبصرہ کریں