امریکہ اپنی پوری طاقت خطے میں لے کر آیا ہے تاکہ آپریشن ‘وعدہ صادق-2’ انجام نہ پا سکے، حسین طائب
فاران؛ سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف کے مشیر اور سپاہ پاسدارن کے انٹیلی جنس کے سابق سربراہ، حجت الاسلام حسین طائب نے جمعرات کی شام کو شہر دزفول کے حسینیہ ثاراللہ میں “جہاد تبیین کے ایک عظیم الشان سیمینار” سے خطاب کرتے ہوئے کہا: امریکہ ـ سنہ 1991ع میں سوویت اتحاد کے خاتمے سے لے کر سنہ 2000ع تک ـ طاقت کے عروج پر تھا، یہاں تک کہ امریکیوں نے اعلان کیا کہ دنیا کا دو قطبی [Bipolar] عالمی نظام ختم ہوچکا اور اب یک قطبی [Unipolar] نظام یعنی امریکی بالادستی کا دور ہے۔ لیکن گذشتہ 24 برسوں سے امریکہ کے زوال کا دور شروع ہو چکا ہے۔
انھوں نے امریکہ کی شکست و ریخت کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امریکہ نے قومی سلامتی کی تازہ ترین دستاویز میں جس پر صدر امریکہ نے 2021ع میں دستخط کردیئے ـ لکھا گیا ہے کہ ہمارے [یعنی امریکیوں کے] انقلاب کے 255ویں برس یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کیا ہم اپنے مقاصد تک پہنچیں گے، یا نہیں بلکہ ہمارا انجام بھی سوویت اتحاد کی طرح شکست و ریخت ہی ہے، یا یہ کہ یک قطبی عالمی نظام چند قطبی (Multipolar) عالمی نظام کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: عثمانی سطنٹ کے زوال کے ساتھ ہی سرزمین فلسطین کا ایک حصہ یہودیوں کے لئے اور ایک حصہ مسلمانوں کے لئے مختص کیا گیا اورفلسطین میں مسلمانوں کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ لیکن آج اسرائیل اپنے زوال کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے یہاں تک کہ غاصب ریاست کے دو سیاسی فریقوں کو بھی یقین ہے کہ اس ریاست کی 80ویں سال تاسیس کو واضح ہو جائے گا کہ اس ریاست کا انجام کیا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ طوفان الاقصیٰ میں اسرائیل اور امریکہ کا فوجی اور معلوماتی غلبہ اور تسلط توڑ دیا گیا۔ سات اکتوبر کو حماس کی فورسز کے پیشگی حملے (Preemptive attack) کے بعد ان دو بڑے مجرموں نے دیکھا کہ دفاعی مورچوں میں بیٹھ کر حماس کے مجاہدین سے لڑنا ممکن نہیں ہے اور بزدلانہ حملوں کا شروع کرکے لبرل ڈیوکریسی کی جرائم پیشے کا میلہ جمایا۔
حسین طائب کا کہنا تھا: اسرائیل کسی صورت میں بھی ]لبنان پر] زمینی جنگ کے لئے تیار نہیں ہے، چنانچہ امریکہ نے دلالی [ثالثی] کا دائرہ وسیع تر کر دیا ہے اور جنگ بندی قائم کرنے کے درپے ہے۔
انھوں نے کہا: دزفول اور اندیمشک کے عوام ـ جو آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران صدام کی وحشیانہ بمباریوں کو دیکھ چکے ہیں ـ اچھی طرح سمجھتے ہین کہ غزہ کے عوام پر کیا گذر رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ باوجود اس کے، کہ صدام کو امریکہ اور سابق سوویت اتحاد کی مکمل حمایت حاصل تھی، کیا صدام کامیاب ہو سکا؟
حجت الاسلام طائب نے کہا: اسرائیل اور امریکہ کے ہاتھ پاؤں مارنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ اور جعلی اسرائیل کی زندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے اور جرائم پیشہ امریکہ کی بالادستی کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے؛ امریکہ وعدہ صادق آپریشن کے موقع پر جتنی فوجی صلاحیت علاقے میں لایا تھا، اب اس سے تین گنا زيادہ صلاحیتوں کو خطے میں لا چکا ہے، صرف اس لئے کہ “وعدہ صادق-2” آپریشن انجام نہ پا سکے۔
انھوں نے کہا: جب حزب اللہ تل ابیب کو نشانہ بناتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ سرزمین مین غاصب یہونیوں کے لئے کوئی بھی محفوظ نقطہ باقی نہیں رہا ہے۔ چنانچہ عالمی رائے عامہ مزید اس بات کی اجازت نہیں دیتی پھر بھی کوئی ابراہیم معاہدہ (Abraham Accord) منعقد ہو۔ آج پوری دنیا جانتی ہے کہ طاقتور بننا بہت ہم ہے اور امریکہ کے ساتھ ڈیٹنگ (Dating) کا مزید کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انھوں نے صدر شہید رئیسی کے دور میں مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی تیرہویں حکومت نے کبھی بھی نہیں کہا کہ ہم فلاں ملک کے ساتھ تعلقات کاٹنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا: یہ راستہ اور رہبر انقلاب اسلامی کی اعلان کردہ پالیسیوں کے دائرے میں ہماری یہ پیشرفت اللہ کے فضل سے آگے بڑھے گی اور عوامی استقامت نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں