امریکہ سعودی تعلقات ایک تاریخی موڑ پر
فاران: سعودی عرب امریکہ تعلقات جس نہج پر پہنچ رہے ہیں، اس پر مغربی میڈیا میں چشم کشا تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ اکثر مغربی ذرائع ابلاغ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی سرد مھری کو نوشتہ دیوار قرار دے رہے ہیں۔ خطے میں آنے والی تبدیلیاں نیز امریکی رویہ اس بات کا غماز ہے کہ تبدیلی کا عمل نہ صرف شروع ہوا ہے بلکہ اس میں تیزی آرہی ہے۔ ابھی اس کے نتائج کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اس اقدام نے صیہونی لابی کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ مغرب کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس مسئلہ کو چھپانا چاہے بھی تو چھپا نہیں سکتا۔ فنانشل ٹائمز اخبار نے باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی عرب جو کہ امریکی جوہری شرائط و ضوابط سے ناخوش ہے، چین، روس اور فرانس کی پیش کردہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر کی تجاویز پر غور کر رہا ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکہ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں چینی سرکاری کمپنی کے ساتھ تعاون شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ قبل ازیں وال اسٹریٹ جرنل نے سعودی عرب کے باخبر حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ چین کی نیشنل نیوکلیئر کمپنی جسے “CNNC” کہا جاتا ہے، اس نے ریاض کو اس ملک کے مشرقی صوبے میں جو کہ قطر کی سرحد کے قریب ہے، ایک جوہری پاور پلانٹ بنانے کی تجویز دی ہے۔ جہاں تک امریکہ سعودی تعلقات کا تعلق ہے، دستیاب شواہد بتاتے ہیں کہ یہ تعلقات دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں اور سعودی عرب خطے اور دنیا میں نئے متبادل کی تلاش میں ہے۔
ٹیلی گراف کے مطابق اب 13 سال بعد دنیا میں تبدیلیاں آئی ہیں اور تیزی سے نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی کثیر قطبی دنیا میں، سعودی عرب دوسرے سکیورٹی پارٹنرز کی تلاش میں ہے، وہ ایسے اتحادیوں کے قریب جانا چاہتا ہے، جو انسانی حقوق کے مسائل پر سعودی عرب پر کم تنقید کرتے ہوں۔ گذشتہ 15 سالوں میں خلیج فارس کے تیل پر واشنگٹن کا انحصار کافی حد تک کم ہوا ہے اور دوسری طرف شیل انقلاب نے امریکہ کی گھریلو توانائی کی پیداوار میں اس طرح اضافہ کیا ہے کہ آج امریکہ اپنے تیل کا چھ فیصد سے بھی کم سعودی عرب سے درآمد کرتا ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ “تیل بمقابلہ سلامتی” کی مساوات، جس نے کئی دہائیوں تک سعودی امریکہ تعلقات کی تشکیل کی تھی، اب سوالیہ نشان بن چکی ہے اور اب وہ عملی طور پر موجود نہیں ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی، جب سعودی حکام نے وائٹ ہاؤس کی توقعات کے باوجود اپنے تیل کی پیداوار کم کرنے کا فیصلہ کیا، امریکہ کا خیال تھا کہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافے پر ریاض کے ساتھ متفق ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب بیجنگ کے ساتھ ریاض کے گہرے تعلقات تیل کی برآمدی منڈیوں کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔چین 2022ء میں 1.75 ملین بیرل یومیہ خرید کر سعودی تیل کا اہم درآمد کنندہ بن گیا ہے۔ تیل کی بڑی کمپنی آرامکو نے بھی چین میں اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے شنگھائی اور برکس کا رکن بننے کی خواہش کا اظہار اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو برکس بلاک میں شمولیت کی دعوت دینا امریکہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کی ایک اور جہت کی تصویر کشی کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برکس گروپ میں شامل ہونے کے لیے مشرق وسطیٰ کی دو بڑی معیشتوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کامیاب کوششوں نے ان کی امریکہ سے آزادانہ طور پر کام کرنے کی صلاحیت کو مضبوط کیا ہے۔ امریکہ نے طویل عرصے سے ان کی سلامتی کی ضمانت دے رکھی ہے۔ برکس اور یہاں تک کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی شکل میں چین کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک کے تعلقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیج فارس میں مغرب کے دو اہم اتحادی نئے اتحاد کی راہ پر گامزن ہیں۔ بلاکس اور طاقت کے تعلقات کو تبدیل کرنے نیز دنیا میں غیر مغربی کھلاڑیوں کی تعداد میں اضافہ نے متبادل راستے کھول دیئے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں نے تیل کی پیداوار، یوکرین میں جنگ اور ایران اور شام کے ساتھ اپنے تعلقات جیسے مسائل میں خود کو امریکہ کے نقطہ نظر سے الگ کر لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب یہ جانتے ہوئے کہ اسے اپنے تمام انڈے مغربی ممالک کی ٹوکری میں نہیں ڈالنے چاہئیں، دنیا کے مستقبل کے معاشی اور سیاسی نظام میں ماضی کی نسبت زیادہ آزاد کردار ادا کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے برکس ممالک کے گروپ میں شامل ہونے کے بعد، یہ اتحاد اب دنیا کے کئی بڑے تیل پیدا کرنے والے اور برآمد کنندگان پر مشتمل ہے اور یہ برکس کے لیے مزید موثر کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
ادھر ڈی ڈالرائزیشن کے عمل کا آغاز دراصل امریکہ کی تسلط پسندانہ کارکردگی سے ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ کی طرف سے لگائی گئی یکطرفہ مالی پابندیوں نے ڈی ڈالرائزیشن کی ضرورت اور اس کے زوال کو ممکن بنا دیا۔ امریکہ اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور تعاون کو مضبوط بنانا اور برکس میں شامل ہونا پوری طرح سے حقیقت پسندانہ اور عالمی تبدیلیوں اور پیشرفت کے لیے موزوں ہے اور ان ممالک کے مفادات کی ضمانت دیتا ہے۔ مفادات کی اس دنیا میں تمام تر سفارتکاری کا محور و مرکز رہاستی مفادات ہیں۔ امریکہ اس تناظر میں کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، وہ اپنے مفادات کے لیے پرانے اور نئیے اتحادیوں میں فرق کا قائل نہیں۔ وہ اپنے اتحادیوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ امریکہ کے اسی رویئے کی وجہ سے اسے ناقابل اعتبار قرار دیا گیا ہے۔
تبصرہ کریں