امریکی تعاون سے داعش جیسا مجرمانہ اقدام

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی ایک سیکورٹی تحقیقاتی ادارے کے بقول لکھا ہے کہ لبنان میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ لبنان برآمد ہونے والے کمیونیکیشن آلات میں تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ اس اخبار کے مطابق موساد نے ان پیجرز کو لبنان پہنچنے سے پہلے ہی اپنی تحویل میں لیا اور اس میں تخریب کاری کی۔

فاران: لبنان اور عرب دنیا کے کچھ حلقوں نے لبنان میں ہزاروں پیجرز میں دھماکوں کو داعش کی جانب سے انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کے مشابہہ قرار دیا ہے۔ اس مشابہت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے اس اقدام کے ذریعے نہ صرف گھروں، محلوں، اسپتالوں، طبی مراکز اور بازار میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس میں حزب اللہ لبنان سے وابستہ سویلین مراکز میں کام کرنے والے افراد پر حملہ کیا ہے بلکہ کئے بچوں اور خواتین کو بھی شہید کر ڈالا ہے۔ لبنان کے وزیر صحت نے اعلان کیا ہے کہ اس دہشت گردانہ اقدام میں 12 لبنانی شہری شہید ہو چکے ہیں جبکہ 2750 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں ایک بچی جبکہ زخمی ہونے والوں میں علی عمار، پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے رکن کے بیٹے بھی شامل ہیں۔

لبنان کے وزیر صحت نے تمام اسپتالوں پر زور دیا ہے کہ وہ تمام زخمیوں کا علاج معالجہ کریں۔ دوسری طرف لبنان میں شہری دفاع کے شعبے نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی لبنان کے اسپتال زخمیوں سے پر ہو چکے ہیں جس کے باعث وہ کچھ زخمیوں کو دیگر صوبوں میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی مزاحمتی فورسز اور لبنان کے سیکورٹی حکام کے مطابق اس دہشت گردانہ اقدام میں صرف حزب اللہ لبنان کے اراکین زخمی نہیں ہوئے بلکہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں عام شہری اس کی زد میں آئے ہیں لہذا یہ اقدام تمام ریڈ لائنز سے عبور ہے۔ بڑی تعداد میں عام شہریوں کو دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے غزہ میں عام فلسطینی شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات ان شدت پسند دہشت گرد گروہوں کے اقدامات سے کوئی فرق نہیں رکھتے جن میں وہ بم دھماکوں کے ذریعے عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے بیانیے میں اسرائیل کو صرف مجاہدین کا قاتل قرار نہیں دیا بلکہ عام شہریوں کا قاتل قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے حزب اللہ لبنان اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اسرائیل نے ریڈ لائن سے عبور کیا ہے۔ یہ مزاحمتی گروہ بھی ایسا ہی جواب دے گا اور اب اسرائیل میں سویلین صیہونی بھی حزب اللہ لبنان کے حملوں سے بچ نہیں پائیں گے۔ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کی جوابی کاروائی کا انتظار نہیں کرے گا اور شدت پسندانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے گا اور لبنان سے واضح جنگ کی جانب حرکت کرے گا۔ لبنان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے کے ساتھ ہی اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ شمالی محاذ پر بڑی تبدیلی لائی گئی ہے اور اب غزہ کی بجائے شمالی محاذ کو پہلی ترجیح دی جائے گی۔ ان سب سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل لبنان کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے کے درپے ہے۔

لبنان میں دہشت گردانہ حملوں کے ساتھ ساتھ صیہونی حکمرانوں کی جانب سے آئے دن لبنان پر فوجی حملے کی دھمکیوں نیز تل ابیب میں منعقد ہونے والے سیکورٹی اور فوجی میٹنگز سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کی مساواتیں تبدیل ہو چکی ہیں اور اسرائیل مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں چند کلومیٹر کی سرحدی پٹی پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ لہذا حزب اللہ لبنان نے بھی خود کو جنگ کیلئے پوری طرح تیار کر رکھا ہے اور آنے والے دنوں میں سرحد پر فوجی ٹکراو میں شدت یقینی ہو چکی ہے۔ صیہونی رژیم کے ٹی وی چینل 14 نے رپورٹ دی ہے کہ بڑے پیمانے پر فوجی سازوسامان اور فورسز غزہ سے شمالی محاذ پر منتقل کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح عبری زبان میں شائع ہونے والا اخبار اسرائیل ہیوم نے آگاہ سیکورٹی ذریعے کے بقول لکھا ہے کہ ممکن ہے بہت جلد تمام اسرائیلی شہریوں کو پناہ گاہوں کا رخ کرنا پڑ جائے۔

اسرائیل ہیوم مزید لکھتا ہے کہ اگر جنگ کا آغاز موسم سرما میں ہوتا ہے تو شاید اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑے لہذا صیہونی فوج ابھی سے جنگ شروع کرنے کے درپے ہے۔ یہ عبری اخبار مزید لکھتا ہے: “نیتن یاہو جان چکا ہے کہ حزب اللہ کے مقابلے میں اس سے زیادہ صبر نہیں کیا جا سکتا لہذا اس نے وزیر جنگ یوآو گالانت جو حزب اللہ سے جنگ کا مخالف ہے کو برطرف کرنے کی دھمکی دی ہے۔ گالانت بھی اب نیتن یاہو کی بات مان چکا ہے اور خود کو حزب اللہ کے خلاف جنگ کیلئے تیار کر رہا ہے۔” بیروت میں سیاسی حلقے موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے رہے ہیں اور عام عوام میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ امریکہ کے جاسوسی ادارے حالیہ دھماکوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں تحقیق جاری ہے اور اب تک یہ معلوم ہوا ہے کہ جن پیجرز میں دھماکے ہوئے ہیں وہ چند ماہ قبل ہی تائیوان کی ایک کمپنی سے خریدے گئے تھے۔

رپورٹس کے مطابق ان پیجرز میں اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد نے چپس نصب کر رکھی تھیں اور دھماکہ خیز مادہ بھی ڈال رکھا تھا جنہیں ڈرون طیاروں کے ذریعے مخصوص ریڈیو فریکوئنسی پر مسجز ارسال کر کے دھماکے سے اڑایا گیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی ایک سیکورٹی تحقیقاتی ادارے کے بقول لکھا ہے کہ لبنان میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ لبنان برآمد ہونے والے کمیونیکیشن آلات میں تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ اس اخبار کے مطابق موساد نے ان پیجرز کو لبنان پہنچنے سے پہلے ہی اپنی تحویل میں لیا اور اس میں تخریب کاری کی۔ اسرائیل کے اس دہشت گردانہ اقدام میں امریکہ کی مدد کا امکان بھی پایا جاتا ہے جس صورت میں امریکہ اسرائیل کا شریک جرم قرار پائے گا۔ یہ ایک وسیع دہشت گردانہ اقدام تھا جس میں بڑے پیمانے پر لبنان کے عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ عالمی قوانین کی روشنی میں بھی جنگی جرم قرار پاتا ہے۔