امریکی دانشور ‘نوآم چامسکی’ کا تعارف
فاران؛ مورخہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع کو مشکوک اور متنازعہ حملوں میں نیویارک کی جڑواں عمارتیں زمین بوس ہوئیں تو وقت کے امریکی صدر جارج بش نے تو صلیبی جنگوں کے نئے آغاز کا تذکرہ کیا اور امریکی و یورپی ذرائع نے US under attack اور Why the muslims hate us جیسے عناوین سے مسلمانوں کے خلاف دل کھول کر زہرافشانی کی جبکہ بہت سے مسلم ممالک کے ذرائع نے بھی ان کا ساتھ دیا لیکن جو بات کبھی بھی مغربی ذرائع ابلاغ میں دیکھنے کو نہ ملی وہ یہ ہے کہ “امریکہ سمیت مغربی ممالک اسلامی ممالک سے نفرت کیوں کرتے ہیں” اور اب یہ بات بھی ایک امریکی دانشور “نوآم چامسکی” کے زبانی سننے کو ملی ہے کہ “امریکہ ایران سے کیوں نفرت کرتا ہے؟” انھوں نے خود ہی سوال اٹھایا ہے اور خود ہی اس کا جواب دیا ہے۔
نوآم چامسکی امریکی پروفیسر، ماہر لسانیات، نظریہ پرداز اور مفکر ہیں جنہوں نے ایک مکالمے کے دوران کہا ہے کہ ۱۹۷۹عکے انقلاب کے بعد استقلال اور خودمختاری کی طرف حرکت شروع کی چنانچہ امریکہ کے سیاستدان تہران سے نفرت کرنے لگے اور اس نفرت میں مسلسل شدت آرہی ہے۔
انھوں نے ایران پر مغربی ممالک کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “مغربی ایشیا کے قدامت پسند ترین اور رجعت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے بطور نمونہ حجاز پر مسلط بنی سعود کی حکومت اور عرب امارات پر مسلط بنی نہیان کی حکومتوں کا تذکرہ کیا ہے جو امریکہ کی حمایت سے بہرہ ور ہیں۔
۹۰ سالہ چامسکی، جو ایم آئی ٹی اور ایریزونا یونیورسٹی کے سبکدوش پروفیسر ہیں جو “جدید لسانیات کے باپ The Father of Modern Linguistics” اور علمِ ادراکیات (cognitive science) کے بانی کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ عصر حاضر کے عظیم ترین بقید حیات مغربی دانشور مانے جاتے ہیں۔
تبصرہ کریں