ایران-سعودی سمجھوتہ عارضی صہیونی ریاست کے لئے باعث تشویش کیوں؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی اخبار اسرائیل ہایوم نے ایران-سعودی سمجھوتے کو جعلی صہیونی ریاست کے لئے باعث تشویش قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ صہیونی ریاست ہمیشہ کے لئے خطے میں کشیدگی سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے چنانچہ خطے میں کسی بھی قسم کا اتحاد و استحکام یہودی ریاست کے مفادات کے لئے بری طرح نقصان دہ ہے۔
فاران کے مطابق،
اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان عراق اور عمان کی میزبانی میں دو سال تک مذاکرات، چین کے دارالحکومت بیجنگ میں کئی روز تک مسلسل بات چیت کے بعد، دو ملکوں کے قومی سلامتی کے اداروں کے سربراہوں نے، مورخہ 10 مارچ 2023ع کو مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا۔
اس سیاسی عمل کے تسلسل میں، دو ملکوں کے وزرائے خارجہ نے بھی 6 اپریل کو بیجنگ میں ہی ملاقات کرکے دو ممالک کے درمیان موجودہ سمجھوتوں پر عملدرآمد اور سفارت خانوں کے دوبارہ کھولنے کے لئے ماہرین کے وفود کے تبادلے پر اتفاق کرکے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا؛ یہی وہ اقدامات تھے جن کی وجہ سے عارضی صہیونی ریاست کو تشویش لاحق ہوئی ہے، اور اسے ایران کو تنہا کرنے کی اپنی سازشوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
صہیونی اخبار اسرائیل ہایوم (Israel Hayom) نے سوموار مورخہ 24 اپریل 2023ع کو اس سمجھوتے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: اسرائیل کو ایک طرف سے شدید اندرونی بے چینی اور وسیع پیمانے پر مسائل کا سامنا ہے، دوسری طرف سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان “غیر متوقعہ سمجھوتہ” منعقد ہونے اور خطے کے ممالک کے درمیان یکجہتی نیز شام اور یمن میں کشیدگی کے خاتمے کی وجہ سے علاقے کی جغ سیاسی (Geopolitical) صورت حال میں تبدیلی آئی ہے اور یہ وہ اسباب ہیں جن کی رو سے اسرائیل کو وہ دیکھنا پڑ رہے ہیں جن کی اس کو ہرگز توقع نہ تھی۔
اس صہیونی اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیل، حالیہ تبدیلیوں کی بنا پر، ایران اور سعودی عرب کے اتحاد کو ابھی تک ہضم نہیں کر سکا ہے؛ کیونکہ اس سمھجوتے کی وجہ سے خطے میں اسرائیلی اقدامات اور علاقائی ممالک کے ساتھ تل ابیب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا ہے؛ اور یہ سب ایسے حال میں ہؤا ہے کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے راستے پر گامزن تھا اور اسے اس سلسلے میں بھی ناکامی ہوئی ہے۔
اسرائیل ہایوم کی اس رپورٹ کے مطابق، جعلی یہودی ریاست کے وزیر خارجہ نے بھی ایران – سعودی سمھجھوتے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ “ہم حالات کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں”۔
تا ہم صہیونی وزیر خارجہ نے امریکہ کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ امریکہ خطے میں اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہا اور اپنا کردار چین کے سپرد کیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ “خطے کے ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کا اتحاد و اتفاق اسرائیل کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے”۔
ابتدائی مرحلے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے بھی، سات سال اور تین ماہ تک تعلقات منقطع رہنے کے بعد، 6 اپریل کو بیجنگ میں باضابطہ طور پر ملاقات کی اور مشترکہ اعلامئے پر دستخط کئے۔
ڈاکٹر حسین امیر عبداللٰہیان اور فیصل بن فرحان نے اس اعلامئے میں، دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے سلسلے میں اپنے عزم کا اظہار کیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ کے لئے مشترکہ سمجھوتوں کو فعال کرنے اور دو طرفہ وفود کے تبادلے، براہ راست پروازوں کی دوبارہ بحالی کی غرض سے خصوصی وفود کے باہمی مذاکرات، دونوں ممالک کے شہریوں کے لئے ویزوں – بالخصوص عمرہ ویزوں – کے اجراء کو آسان کرنے، اور بین الاقوامی فورمز پر مشترکہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
اسرائیل ہایوم نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے، – خطے کے ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی مفاہمت یا مصالحت کو اسرائیل کے مفاد کے لئے نقصان دہ قرار دیا اور لکھا: یہ وہ مسئلہ ہے جس پر اسرائیل کی داخلی سلامتی کے مطالعاتی مرکز نے تاکید کی ہے؛ اس ملک نے ہمیشہ خطے کے ممالک کے درمیان اختلاف اور کشیدگی کو اپنی سلامتی اور [سازباز کرنے کے خواہاں ممالک کے ساتھ] تعلقات مضبوط بنانے اور اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا فائدہ اٹھایا ہے۔
اسرائیل ہایوم کے مطابق، حالیہ مہینوں کے دوران مشرق وسطیٰ میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کی وجہ سے نئے اتحاد قائم ہوئے، “ایسے اتحاد جنہوں نے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا ہے” اور یہ مسئلہ کسی بھی طرح صہیونی ریاست کے مفاد میں نہیں ہے؛ اگرچہ ابھی تک یہ مسئلہ آشکار نہیں ہؤا ہے کہ صہیونیوں پر علاقائی مفاہمت و مصالحت کے اس عمل کے اثرات کیا ہونگے۔
اسرائیل ہایوم نے لکھا ہے: ان تمام تبدیلیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران نے اپنا موقف بدل دیا، عراق نے ثالث کا کردار ادا کیا اور سمجھوتے کے نفاذ کی ضمانت چین نے فراہم کر دی؛ چنانچہ خطے میں امریکہ کردار بھی بدل گیا ہے جو اسرائیل کے مفاد سے متصادم ہے؛ اور پھر امریکہ یوکرین کے جنگ میں الجھا ہؤا ہے جس کی وجہ سے وہ مشرق وسطیٰ کی طرف توجہ نہیں دے پا رہا ہے؛ اور یوں چین کو، خطے میں داخل ہو کر اس میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا موقع فراہم کیا گیا۔
سعودی عرب کے ساتھ ساتھ، حال ہی میں اردن نے بھی زور دے کر کہا ہے کہ وہ اس اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے اسالامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللٰہیان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کرکے، کہا کہ اردن بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح باہمی تعاون اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور باہمی تعاون کے اصول کے تحت، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے جو دو ملکوں اور خطے کے مفاد میں ہے۔
الصفدی نے یہ بھی کہا کہ شام اور اردن کی سرحدوں کی صورت حال، منشیات کی اردن میں اسمگلنگ – جن کی وجہ سے اردن کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے – کی خاطر عملی، شفاف اور دو ٹوک مذاکرات کی ضرورت ہے۔
دو وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا کہ موجودہ مسائل کے حل کے لئے، دو ملکوں کے درمیان سیکورٹی رابطے اور مذاکرات نیز وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کو جاری رکھا جائے، تاکہ مذاکرات کا یہ عمل باہمی سمجھوتوں پر منتج ہو جائے اور مستقبل کے تعلقات کے لئے بنیاد فراہم کی جا سکے؛ ایسے تعلقات جو باہمی تعاون پر استوار ہوں اور یہ روابط علاقے کی سلامتی، استحکام اور علاقائی تعاون میں کردار ادا کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ تہران اردن کے ساتھ تعلقات کے فروغ کا خواہاں ہے اور ایران علاقے میں اردن کے تعمیری کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
ادھر اردن کے وزیر خارجہ نے ایک بار پھر کہا کہ اردن تہران-ریاض سمجھوتے کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے اور اس کو خطے میں موجودہ تناؤ اور کشیدگی کے خاتمے کی بنیاد سمجھتا ہے جو خطے کی سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنائے گا۔
ادھر صہیونی اخبار “معاریو” (Maariv) نے لکھا ہے کہ ایران اور اردن کے درمیان، تعلقات کے فروغ کی غرض سے ہونے والا سمجھوتہ اسرائیل کی شدید تشویش کا باعث بنا ہؤا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ “اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سمجھوتے کے بعد اب ایران اور اردن کے وزرائے خارجہ کے درمیان رابطوں نے اسرائیل کو پریشان اور فکرمند کر دیا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں