ایران کے خلاف اسرائیلی اتحاد دم توڑ چکا ہے: صہیونی ماہر
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غاصب صیہونی رژیم کی تل ابیب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ مشرق وسطی و افریقہ کے سربراہ نے اپنے تازہ مقالے میں تاکید کی ہے کہ ایران کے خلاف خطے کے ممالک کے ساتھ تشکیل پانے والا اسرائیلی اتحاد اب دم توڑ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق متعدد صیہونی ماہر متحدہ عرب امارات و اسرائیل کے درمیان طے پانے والے دوستی معاہدے کے حوالےسے اپنی شدید پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ممکن ہے کہ بعض امور متحدہ عرب امارات کو “ابراہم معاہدے” سے باہر نکلنے یا اسے مصر یا اردن کے ساتھ اسرائیلی دوستی معاہدوں جیسے سرد و سست معاہدے میں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیں۔ عرب روزنامے رأی الیوم کے مطابق تل ابیب یونیورسٹی کے وائس ریکٹر پروفیسر آیل زیسر (Prof. Eyal Zisser-Department of Middle Eastern and African History) نے اپنے مقالے میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ دستخط کئے جانے والے اپنے دوستی معاہدوں کو آگے بڑھانے کے لئے بری طرح تگ و دو میں مصروف ہے، اعتراف کیا کہ یہ ایک مشکل کام ہے جو خطے کے عرب ممالک کے ساتھ اسرائیلی دوستی کے غیر قابل شکست ہونے سے متعلق گہرے شک و تردید کی بنیاد پر استوار ہے۔
صیہونی اخبار اسرائیل ہیوم میں شائع ہونے والے مقالے میں اسرائیلی پروفیسر نے لکھا کہ “ابراہم معاہدے” کسی طور امن معاہدے نہیں جبکہ اب اسرائیل میں اس حوالے سے خطرے کی بہت سی گھنٹیاں بھی بجنے لگی ہیں درحالیکہ اس سنگین معاہدے پر مزید عملدرآمد کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی عدم توانائی اسے اس معاہدے سے دستبرداری یا اس معاہدے کو دوسرے عرب ممالک کے ساتھ اسرائیلی معاہدوں جیسے سرد و سست بنا دینے پر مجبور کر رہی ہے۔ آیل زیسر کے مطابق اس بات کا زندہ ثبوت متحدہ عرب امارات کے ولیعہد کا بھائی اور سربراہ قومی سلامتی کمیشن “طحنون بن زاید” ہے جو نفتالی بینیٹ اور محمد بن زائد کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی موجود تھا تاہم ایک ہفتہ قبل ہی تہران کا دورہ کر کے ایران و متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کی توسیع کے حوالے سے گفتگو کر چکا تھا جبکہ اس ملاقات میں اس نے ایرانی صدر جناب سید ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقات کی تھی جو اپنی صدارت کے آغاز سے ہی خلیجی ممالک کو ایران کے قریب لانے اور اسرائیل و امریکہ سے دور کرنے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔
صیہونی ماہر نے لکھا کہ جیسا کہ سعودی بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے تہران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے اور وہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، اب اس بات میں کوئی تعجب نہیں رہا کہ اب خلیجی ممالک ایران کو قابو کرنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے کی بات تک نہ کریں گے بلکہ وہ ایران کے ساتھ گفتگو اور اس کے ساتھ دوستی کی بات ہی کرتے رہیں گے تاہم اسرائیل کو بھی خلیجی ممالک کے حق میں ظلم نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اب جوبائیڈن کی حکومت ہے جو خطے سے امریکی فورسز کو نکال لینا چاہتا ہے لہذا خطے کے ممالک ایران سے دوستی بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچ جائیں۔ تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر کا لکھنا تھا کہ مزید برآں شہزادہ طحنون کے کاندھوں پر روس و چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی توسیع کی ذمہ داری بھی ہے جس کے باعث امریکی غصہ بھڑک اٹھا اور اس نے متحدہ عرب امارات کو ایف-35 طیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔ آیل زیسر نے لکھا کہ یہ طحنون بن زاید ہی تھا جو امارات و ترکی کے درمیان تعلقات کو بھی معمول پر لے آیا جبکہ ابھی 1 سال قبل ہی ترک صدر اردوغان نے “ابراہم معاہدے” پر احتجاج کرتے ہوئے انتہائی غضبناک انداز میں ابوظہبی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا درحالیکہ اب وہی رجب طیب اردوغان دوطرفہ تعلقات کا گرماگرم خیرمقدم کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے دوطرفہ معاہدوں کو دستخط کر رہا اور اس بات کا متمنی ہے کہ ان معاہدوں سے ترکی کی متزلزل معیشت کو سہارا ملے گا۔
مشرق وسطی و افریقہ کے صیہونی ماہر نے 1 ماہ قبل نفتالی بینٹ کے ساتھ ملاقات میں شریک متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید کی جانب سے شام کو عرب ممالک کے درمیان واپس پلٹانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات اور ان کے دورۂ روس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ “یہ مشرق وسطی ہے!” آیل زیسر نے لکھا کہ مشرق وسطی میں حکام یہی چاہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ تمام امکانات کو روشن رکھیں اور ہمیشہ دو کشتیوں پر سوار رہیں۔ صیہونی ماہر نے لکھا کہ مشرق وسطی کے حکام کبھی رضاکارانہ طور پر ابتداء نہیں کرتے اور یہ وہی کام ہے کہ جو اسرائیل بھی انجام دے رہا ہے تاکہ وہ دوسرے فریق کی جگہ جنگ میں کود پڑیں جبکہ اس معرکے میں صرف مصلحت ہی فتحیاب ہوتی ہے۔ اسرائیلی ماہر نے اپنے مقالے کے آخر میں لکھا کہ اس وقت امریکہ کی جانب سے جان چھڑوانے پر مبنی پالیسی اختیار کئے جانے کے جواب میں متحدہ عرب امارات کے فائدے میں یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ گفتگو کو آگے بڑھاتے اور توسیع دیتے ہوئے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی مذاکرات میں شریک رہے کیونکہ امارات میں اس وقت یہ بات بخوبی محسوس کی جا رہی ہے جو خطے کے دوسرے ممالک کے لئے بھی ایک سبق ہے!
تبصرہ کریں