ایک جامع امریکی سازشی منصوبے کی کایا پلٹ کی مختلف جہتیں

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکہ، یورپ اور یہودی ریاست اور ان کے علاقائی گماشتے پوری طاقت سے میدان میں آئے اور ایران میں وسیع پیمانے پر بغاوت کے اسباب فراہم کرنے اور ایران کے اسلامی نظام کو پسپائی پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
“دشمن کا منصوبہ، جامع منصوبہ تھا، یعنی اس نے ان تمام عوامل کو استعمال کیا جو ایک طاقت کسی ملک میں خلل ڈالنے اور تخریب کاری کروانے کے لئے بروئے کار لا سکتی ہے۔۔ اس نے تمام عناصر کو استعمال کیا: اقتصادی عنصر، سلامتی کا عنصر، ایرانو فوبیا کا عنصر، تشہیری مشینریوں کا وسیع استعمال، بعض اندرونی عناصر کو اپنے ساتھ ملانا، قومی اور قبائلی، مذہبی، سیاسی اور ذاتی محرکات کو بروئے کار لانا”۔ یہ 20 جمادی الثانی کو مداحان اہل بیت (علیہم السلام) کے اجتماع سے رہبر معظم امام خامنہ (دام ظلہ العالی) کے خطاب کا یہ اقتباس تھا جس سے ایران کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لئے چلائی جانی والی عظیم سازش کے مختلف پہلو بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ اہم نکات یہاں قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں:
1۔ سنہ 2019ع کی ابتدء میں معلوم ہؤا کہ ایران نے پابندیوں کی سختیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور صفر کا نقطہ چھوڑ کر اوپر کی سمت جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ بعد یہ صورت حال بہتر ہوئی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے اعلان کیا کہ ایران کی معاشی ترقی کی رفتار اوسط عالمی شرح سے بالاتر ہے۔ اور ایک معتبر بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے اعلان تھا کہ ایرانی معیشت کی ترقی کی شرح 2021ع میں 1/7 فیصد ہوگی اور اسی ادارے نے مئی 2022ع کو اپنے تخمینے کی تصحیح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ شرح 3/7 فیصد یعنی سابقہ تخمینے سے دو گنا سے بھی زیادہ رہی ہے۔ اسی ادارے نے اندازہ لگایا کہ ایرانی معیشت کی ترقی کی شرح 2022ع میں 5 فیصد اور 2023ع میں 7 فیصد ہوگی۔ گوکہ اعداد و شمار بہتر معیشت کی نوید دے رہے تھے مگر ملک کے اندرونی حسابات سے کچھ پیچھے تھے۔ اسی اثناء میں عالمی بینک نے اعلان کیا تھا کہ ایران کی معیشت کی ترقی کی شرح سنہ 2023ع میں 8 فیصد ہوگی۔
لیکن چونکہ معاشی پابندیوں اور امریکہ کی طرف سے اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں اسی حکمت عملی پر اصرار کے پیش نظر یہ خبریں ایران کے لئے خوشایند نہیں ہو سکتے تھے چنانچہ ترقی کی شرحوں کے اقرار اور “زیادہ سے زیادہ پابندیوں” کے باوجود ایران کے رویوں میں تبدیلی لانے میں ناکامی کے اعتراف کی وجہ سے امریکہ ایران کے بارے میں دوبارہ غور و فکر کرنے پر مجبور ہؤا۔ چنانچہ بائیڈن انتظامیہ نے آیپیک (American Israel Public Affairs Committee [AIPAC]) جیسے یہودی اداروں کا دامن تھام کر نتیجہ اخذ کیا کہ اسے ایران میں “زیادہ سے زیادہ بلؤوں” کو ہوا دینے کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا چاہئے۔ اور یوں جو بائیڈن – جس نے سنہ 2020ع کے صدارتی انتخابی مہم کے دوران بارہا، کامیابی کی صورت میں، جوہری معاہدے میں واپسی کے نعرے لگائے تھے اور بر سر اقتدار آنے کے بعد مذاکرات کے لئے مناسب ماحول بنانے کا شوق دکھایا تھا – اپنے کام کے وسط میں وقت گذارنے کی پالیسی پر گامزن ہؤا اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے آخری دور کے بعد سے، مذاکرات کے مسئلے کو بالائے طاق رکھ دیا۔ یورپی اتحاد کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بورل نے، ایرانی سفارتکار کی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی درخواست پر کہا تھا: “اس وقت جوہری مذاکرات مغرب کے لئے ترجیح نہیں رکھتے، اور ہم ایران کی ڈرون قوت اور انسانی حقوق کے مسائل پر اسلامی جمہوریہ ایران سے مثبت جواب کے منتظر ہیں! اگر آپ ان دو مسئلوں میں تعاون کریں گے تو اس صورت میں جوہری مسئلہ بہت تیزی سے قابل حل ہوگا”۔
امریکہ، یورپ اور یہودی ریاست اور ان کے علاقائی گماشتے پوری طاقت سے میدان میں آئے اور ایران میں وسیع پیمانے پر بغاوت کے اسباب فراہم کرنے اور ایران کے اسلامی نظام کو پسپائی پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ گوکہ اندر سے بھی ماضی میں حساس عہدوں پر فائز رہنے والے افراد نے امریکہ اور یورپ کو کچھ اشارے دیئے اور وہ یہ کہ “جناب خامنہ ای کو اس نقطے پر پہنچا دو کہ وہ نظام حکومت کی بنیادوں کے لئے فکرمند ہو جائیں، اور اس کے بعد وہ اپنے تحفظات کو بھول جائیں گے اور مسئلہ بنیادی طور پر حل ہو جائے گا!”۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے گذشتہ ہفتے جمعرات (12 جنوری 2023ع) کے دن اپنے خطاب میں ضمنی طور پر اس سازشی دھارے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: “دشمن کو وہم ہو گیا تھا کہ دشنام طرازی اور بد زبانی اور مختلف النوع بے حرمتیوں اور اہانتوں کے ذریعے ملکی ذمہ داروں کو میدان سے نکل باہر کر سکے گا، انفعالیت سے دوچار کر سکے گے، یعنی جب کچھ بد زبانیاں ہوئیں، بد زبانیاں ہوئیں، اہانتیں ہوئیں تو کچھ لوگ انفعالیت کا شکار ہوجائیں گے”۔
2۔ اس اثناء میں دشمنان اسلام کو حکومتوں اور رائے عامہ کی معیت کی بھی ضرورت تھی۔ چنانچہ تقریبا ایک سال قبل سے ایک اخباری تحریک کا آغاز کیا جس کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ “ایران ایٹم بم بنانے کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے”۔ جعلی یہودی ریاست نے تو ی تک بھی کہا کہ ایران کے پاس ایک یٹم بم موجود ہے۔ حالیہ ایام میں – جو بلؤوں کا زور ٹوٹ گیا تو – ایک صہیونی اہلکار نے ایران مخالف ماحول کو بحال رکھنے کی غرض سے کہہ ڈالا کہ “ہمارے جائزوں کے مطابق، ایران کے پاس اسی وقت چار ایٹم بم موجود ہیں”۔ بائیڈن نے انتخابی مہم میں وعدہ دیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں، ایٹمی معاہدے میں واپس آئے گا اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے راستے پر قائم رہے گا، لیکن اس نئی ماحول سازی کے زیر اثر ہر روز ایک نئی پابندی کا اعلان کرتا رہا یہاں تک کہ بائیڈن کی لگائی ہوئی پابندیوں کی تعداد ٹرامپ کی لگائی پابندیوں کے بالکل قریب پہنچی۔ امریکی حکومت اسی اثناء میں، ایران کے خلاف ایک عسکری، سیاسی اور سیکورٹی محاذ قائم کرنے کی مہم میں بھی شامل ہوئی، جس کا ایک نتیجہ عرب ممالک کا مشترکہ اجلاس تھا جو گذشتہ جولائی میں سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہؤا۔ یہ اجلاس اس باضابطہ علامت کے ساتھ شروع ہؤا کہ “ریاض میں اجتماع کرنے والے عرب ممالک ایران کی علاقائی روک تھام کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں”۔ لیکن کچھ خاص وجوہات کی بنا پر- جنہیں راقم نے اپنے سابقہ کالموں میں بیان کیا ہے – یہ اجلاس کامیاب نہ ہو سکا۔
3۔ اس عظیم بین الاقوامی سازش کے ساتھ ملک کے اندر بھی ایک لہر اٹھی۔ کچھ خاص اخبارات نے ایران پر وقت تلف کرنے اور مبینہ عالمی برادری! (یعنی مغرب) کا ساتھ نہ دینے کا الزام لگایا۔ ہر روز اسلامی جمہوریہ کے سامنے کھڑی رکاوٹوں کا تذکرہ کیا؛ حالانکہ معیشت، سیاست اور سلامتی کے میدانوں میں دنیا کے مشہور و معروف عالمی ادارے اور ماہرین ان کے اس خیال کے خلاف تھے۔ دشمنوں کی طرف سے ایران کا چہرہ بدنما بنانے کا مقصد صرف یہی نہیں تھا کہ وہ جوہری مسئلے میں ایران سے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرنا چاہتے تھے بلکہ اصل مقصد ملت ایران کے ان کے ملک کے مستقبل سے مایوس کرانا اور بلؤوں کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنا تھا۔ جیسا کہ ان دھاروں کے سرغنے امریکہ کے ساتھ ہم صدا ہو کر حالیہ بلؤوں کے دوران ، تسلسل کے ساتھ اس بات پر زور دیتے رہے کہ ایران کو بند گلی کا سامنا ہے، ایران کو بلوائیوں – یعنی امریکی عزائم – کے سامنے سر خم کرنا چاہئے! یہ اندرونی لہر در حقیقت ایک بڑی سازش کا حصہ تھی جو مغرب، یہودی ریاست اور ان کے علاقائی گماشتوں نے تیار کی تھی جس کا انتہائی مقصد یہ تھا کہ ایران اپنی پالیسیوں سے پسپا ہوجائے اور سر تسلیم خم کرے! یہ مسئلہ کافی بڑا تھا مگر رہبر انقلاب امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے اپنی معمول کی بزرگواری اور بڑائی سے کام لے کر اس کی طرف مختصر سا اشارہ کیا اور فرمایا: “انھوں نے اندرونی عناصر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، یہ سلسلہ کچھ عرصہ قبل شروع ہؤا، اور یہ بھی اہم ہے”۔
حقیقت یہ ہے کہ حالیہ بلؤوں کی ہدایت کاری، اسکرپٹ رائٹنگ، اور احکامات جاری کرنے کا کام امریکی جاسوسی اور سیاسی اداروں کے ہاتھ میں تھا۔ ابتداء میں – امریکی ہدایات کی بنا پر – عربی زبان میں ایک یادداشت سامنے آئی جو بظاہر سیاسی دیوالیہ میرحسین موسوی نے لکھی تھی۔ یہ یادداشت سعودی اخبار “شرق الاوسط” میں شائع ہوئی اور اس جھوٹ کے ملک کے اندر اور باہر بھی طوطی وار دہرایا گیا۔ بعدازاں واشنگٹن پوسٹ اور CNN – جو مغربیوں کے ہاں معتبر ہیں – اسی لہر پر سوار ہوئے۔ اور مغرب میں تعینات فارسی زبان کے ذرائع ابلاغ میں ایک نئی لہر اٹھی یہ جتانے کے لئے کہ زیادہ سے زیادہ آشوب اور زیادہ سے زیادہ تخریب کاری کے لئے ماحول آمادہ ہے۔
4۔ اس اثناء میں دشمن نے ایرانیوں کی خصوصی صلاحیتوں سے غافل رہا تھا یہ اگر اس نے ان صلاحیتوں کو نظر رکھا بھی تھا تو اس کے پاس ان صلاحیتوں کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت نہیں تھی۔ وہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ یہ وہی قوم ہے جس نے گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران مغربی تسلط کے خلاف کئی تحریکیں چلائی ہیں۔ یہ وہی قوم ہے جس نے بہت تیزرفتاری سے دنیا کے سب سے بڑے انقلاب کو کامیابی تک پہنچایا ہے اور 44 سال تک کامیابی کے ساتھ اس کی حفاظت کی ہے۔ ایرانی قوم وہی قوم ہے جسے کئی عشروں سے جاری مغربی پابندیاں بھی اسلامی انقلاب پر تنقید کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی ہیں۔ امریکہ اور اس کے گماشتوں نے ایران کی قیادت کی ہوشیاری اور طاقت و شجاعت پر بھی توجہ نہیں دی تھی اور اگر پھر اس پر توجہ دی بھی تو بھی، ان کے پاس اس کے خلاف جھوٹ پھیلانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ کار نہیں تھا۔
ایرانی قوم اور رہبر معظم امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے وقار و عظمت کے ساتھ اس شیطانی لہر پر غلبہ پایا؛ المختصر “دشمنوں کو ناکام بنانے کے لئے ایران کا عزم، ہمیشہ کی طرح، اس عزم کو توڑنے پر مرکوز ہونے والے مغربی ارادے سے زیادہ محکم اور قوی تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں