بزرگ فلسطینی عالم دین پر اسرائیلی وحشی جلادوں کا بہیمانہ تشدد

الشیخ الباز اللد میں فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے اور ان کی وکالت کرنے کے لیے اپنے خطبوں میں آواز بلند کرتے ہیں۔

فاران: قابض اسرائیلی پولیس کے نام نہاد “قطری اینٹی کرپشن اینڈ آرگنائزڈ کرائم یونٹ – لاھف 433″ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر اللد شہر میں واقع جامع مسجد کے امام 63 سالہ الشیخ یوسف الباز کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش شروع کی ہے۔ ان پر جمعہ کے خطبوں میں عوام کو اسرائیل کے خلاف نفرت پر اکسانے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ ذرائع سے پتا چلا ہے کہ بزرگ فلسطینی عالم دین کو دوران حراست ایک بدنام زمانہ عقوبت خانے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

الباز کالعدم اسلامی تحریک کے ایک اہم رہنما ہیں، جس کی سربراہی شیخ راید صلاح کر رہے ہیں۔

الشیخ الباز اللد میں فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے اور ان کی وکالت کرنے کے لیے پہلے بھی آواز بلند کر چکے ہیں۔الباز نے ایک پریس بیان میں کہا تھا کہ تین تفتیش کار جنہوں نے تقریباً چار گھنٹے تک ان سے پوچھ گچھ کی انہوں نے الزام لگایا کہ گذشتہ سال عید الاضحی کے مبارک خطبہ کے دوران اشتعال انگیزی ،تشدد اور دہشت گردی پر اکسایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کرنے والوں نے مجھ سے پوچھا کہ اپنی جان قربان کرنے کا کیا مطلب ہے؟ تو میں نے ان کو جواب دیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قابض ریاست نے ہم پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ کیا ہو، اور ہمارے ساتھ کتنا ہی ظلم کیوں نہ کیا گیا ہو ہم اس سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ مسجد اقصیٰ ہماری ہے اور اس میں یہودیوں کا کوئی ذرہ بھر بھی حصہ نہیں ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کہا کہ میں اسرائیل کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنی جارحیت بند کرے۔ ورنہ یہ دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گی؟۔ میں نے جواب دیا کہ میں اب بھی اس پر اصرار کرتا ہوں۔ تفتیش کار نے جواب دیا کہ ایسا کرکے آپ اسرائیل کی ریاست کو اس کے خاتمے کی دھمکی دیتے ہیں۔

الباز نے کہا کہ انہوں نے تفتیش کار کو جواب دیا کہ آپ کے الفاظ آپ کی طرف واپس آ گئے ہیں۔ مجھے پوری طرح یقین ہے کہ سلطنتیں اسرائیل سے ہزاروں گنا مضبوط تھیں اور یہ سلطنتیں دنیا کے نقشے سے اس لیے غائب ہو گئیں کہ وہ ناانصافی کرتی تھیں۔