بہائیت اور اسرائیل کا گہرا باہمی تعلق
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بہائیوں کا اعلانیہ اور باضابطہ تعلق پہلی عالمی جنگ کے بعد سے شروع ہؤا، جب عباس افندی جیسے لوگوں نے مقبوضہ فلسطین کے شہر عکاء (Acre یا Akko) میں انگریزوں کے لئے جاسوسی کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت انگلستان کو سلطنت عثمانیہ کی حدود میں جاسوس قسم کے لوگوں کی ضرورت تھی، جو انگریزوں کے عزائم سے ہم آہنگ تھے اور ان کے عزائم کو عملی جامہ پہنا سکتے تھے، ان کے اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد دے سکتے تھے اور ان کے کہنے پر عثمانی عملداری میں بغاوت اور بلؤوں کے اسباب فراہم کر سکتے تھے۔
پہلی عالمی جنگ کے آخر میں آرتھر جیمز بالفور (Arthur James Balfour) نے یہودیوں کے قومی وطن کا اعلامیہ جاری کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عثمانی افواج کے سپہ سالار جمال پاشا نے عبدالبہاء کی پھانسی اور عکاء اور حیفا میں بہائی مراکز کی تباہی کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔ ان کے اس فیصلے کا سبب یہ تھا کہ عبدالبہاء سے انگلستان کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم کر لئے تھے۔
شوقی افندی نے علی الاعلان کہا تھا: “جمال پاشا نے عباس افندی کو جاسوسی کے جرم میں پھانسی دینے کا فیصلہ کیا لیکن انگریزی حکومت نے پوری سنجیدگی سے عباس افندی کی حمایت کی۔ اور اس وقت کے وزیر خارجہ جناب لارد بالفور نے ٹیلی گراف کے ذریعے فلسطین میں تعینات جنرل ایلن بی (Edmund Allenby) کو ہدایت کی کہ وہ اپنی پوری قوت سے عبدالبہاء، اس کے اہل خانہ اور دوستوں کی حفاظت کرے۔
ان خدمات اور جاسوسیوں کی بنا پر پہلی جنگ عظیم میں “فاتح قدس” جنرل ایلن بی نے عبدالبہاء کو “سر” (Sir) کا خطاب دیا اور اس کو نائٹ ہوڈ (Knighthood) کے ہیرو ایوارڈ سے نوازا۔
عباس افندی انگریزوں کی سپاس میں، 17 دسمبر سنہ 1918ع میں دست بدعا ہؤا اور چاپلوسانہ انداز سے کہا: “اے پروردگار! عدل و انصاف کا خیمہ اس سرزمین میں برپا ہؤا ہے۔۔۔ اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں ۔۔۔ اے پروردگار! توفیقات رحمانیات کے سے انگلستان کے بادشاہ سلطان اعظم جارج پنجم کی تائید فرما اور اس کے بلند پایہ سائے کو اس اقلیم جلیل (فلسطین) پر پائیدار رکھ”۔
جیسا کہ بیان ہؤا، لارڈ بالفور نے جنرل ایلن بی کو حکم دیا کہ پوری طاقت سے عبدالبہاء، اس کے گھر والوں اور دوستوں کی حفاظت کا اہتمام کرو۔ ان ہی حمایتوں کے بموجب ہی، بہائی یہودیوں کی مدد اور فلسطین میں ان کی تعیناتی کا مناسب مہرے ثابت ہوئے جو بہت قریب سے ان کے ساتھ تعاون کر سکتے تھے۔
مقبوضہ فلسطین کے شہر حیفا میں عباس افندی کی موت اور تدفین کے ساتھ ہی، یہ شہر بہائیوں کا مقدس شہر بن گیا اور بہائیت کے مرکزی انتظامی ادارے نے حیفا کے مقام پر “بیت العدل الاعظم” کے عنوان سے، بہائیوں کی قیادت سنبھالی۔
چنانچہ بہائیوں نے فلسطین کو اپنے گمراہ فرقے کے اصلی مرکز کے طور پر تسلیم کیا۔
اسرائیل کی جعلی ریاست پہلی ریاست تھی جس نے بہائیت کو ایک “سرکاری مذہب” کے طور پر تسلیم کیا۔
شوقی افندی پہلا شخص تھا جس نے جعلی اسرائیلی ریاست کو ارض الاقدس اور مشرق الاذکار جیسے القاب سے نوازا۔
شوقی افندی نے ایک بار اپنے دوستوں سے مخاطب ہو کر کہا: “اے میرے دوستو! تم بھی میری طرح ان اراضی کی طرف رخت سفر باندھو اور اسرائیل کی ارض مقدسہ میں روائح طیبہ (پاک خوشبو) سے مستفیض ہو جاؤ”۔
سنہ 1970ع کی دہائی کے وسط میں، ایرانی بہائیوں نے گستاخی کی انتہا کرکے بہت بڑی رقوم غاصب اسرائیلی ریاست کی امداد کے لئے اکٹھی کر لیں۔
جمع شدہ رقم 12 کروڑ تومان (= دو کروڑ ڈالر) تھی جو بہت بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔ بہائیوں نے یہ رقم بظاہر حیفا کے بیت العدل کے لئے بھجوائی اور درحقیقت اسرائیلی فوج کی امداد کی غرض سے ارسال کی گئی تھی۔
اس رقم کا ایک بڑا حصہ بہائی سرمایہ دار حبیب ثابت المعروف بہ ثابت پاسال، نے ادا کیا تھا۔
پہلوی دور کے سیکورٹی ادارے ساواک کی رپورٹ دیکھئے:
“سنا گیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بہائیوں نے ایک بڑی رقم – جو کئی کروڑ تک پہنچتی تھی – بطور اسرائیل کے لئے بھجوائی ہے۔ البتہ خیال کیا جاتا ہے یہ مالی امداد کی ترسیل کا یہ کام ایران میں اسرائیل کے سفارتی نمائندے جناب غفوری نیز کاشان شہر کے رہائشی حبیب ثابت – جو قبل ازیں یہودی تھا – کے براہ راست تعلق رکھنے والے حبیب القائیان کے ذریعے انجام پائی ہے۔ کیونکہ بہائی محفل کا سرمایہ اور بہائیوں سے وصول شدہ چندہ، جو ہر ماہ “خیر اللہ” کے عنوان سے اکٹھا کیا جاتا ہے، حبیب ثابت کے پاس کے ایک صندوق میں جمع کیا جاتا ہے اور حبیب ثابت یہ رقم سودی قرضے پر لوگوں کو دیا کرتا ہے؛ لیکن اکٹھی کی جانے والی رقم فی الحال نامعلوم ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں