تاریخ کی خونخوار ترین قوم کے خونخوار واقعات (1)

برطانیہ فرانس اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں یہودیوں نے عید فصح کے موقع پر عیسائی بچوں کو اغوا کر کے ان کا خون نکال کر چوس لیا تھا۔ درج ذیل تحریر میں اس کے چند نمونے پیش کئے گئے ہیں۔

فاران؛ تاریخ کی خونخوار ترین قوم یہودی کے چند ایک خونخوار واقعات یہاں پر قارئین کے لے بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں؛

مصر
سنہ ۱۸۸۱ع‍ میں مصر کے شہر “پورٹ سعید” میں یہودیوں نے نہایت ہولناک ترین جرم کا ارتکاب کیا۔ ایک یہودی شخص قاہرہ سے پورٹ سعید آتا ہے، شہر کے مغرب میں ایک مکان کرائے پر حاصل کرتا ہے اور اسی علاقے میں رہائش پذیر ایک یونانی دکاندار کے ساتھ آنا جانا شروع کر دیتا ہے۔
ایک دن یہودی ایک آٹھ سالہ بچی کو لے کر یونانی دکاندار کے پاس پہنچتا ہے، اور شراب لے کر پینا شروع کر دیتا ہے اور بچی کو شراب نوشی پر آمادہ کرتا ہے۔ یونانی مرد حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ دوسرے روز ایک سر بریدہ لاش لوگوں کو ملتی ہے؛ آٹھ سالہ بچی نہایت درندگی سے قتل کی جاچکی تھی۔

شام
سنہ ۱۸۸۰ع‍ ایک شام کے شہر حلب میں ایک عیسائی لڑکی لاپتہ ہوئی۔ تلاش بسیار کے بعد لڑکی کی سربریدہ لاش برآمد ہوئی جس کے ارد گرد خون کا ایک قطرہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس فتل کے الزام میں “رفول انکوتا” نامی یہودی گرفتار ہوا جس نے اعتراف کیا کہ اس نے عید فصح کے لئے اس لڑکی کا خون حاصل کیا تھا۔
مورخہ ۵ فروری ۱۸۴۰ کو یہودیوں نے کیتھولک پادری المعروف بہ “فادر فرانسوا انطوان توما” کو اغوا کیا۔ وہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ایک یہودی بچے کے علاج کے لئے دمشق کے یہودی محلے میں چلا گیا تھا لیکن بیمار یہودی بچے سے ملنے کے بعد واپسی کے راستے میں کچھ یہودیوں نے اسے اغوا کیا اور پھر اس کو نہایت دردناک طریقے سے قتل کر کے اس کا خون عید فصح اور عید پوریم کے لئے حاصل کیا۔
علاوہ ازیں دمشق میں بہت سی چھوٹی بچیاں اغوا ہوئیں اور یہودیوں نے انہیں قتل کرکے ان کا خون جمع کیا۔ شاید ان وارداتوں میں سب سے مشہور واقعہ “ہینری عبدالنور” کی بیٹی کے قتل کا واقعہ تھا۔ یہودیوں نے ۷ اپریل ۱۸۹۰ع‍ کو ان کی بیٹی کو اغوا کیا اور اس کے والد نے اس کے غم میں مشہور قصیدہ لکھا۔

لبنان
یہودیوں نے سنہ ۱۸۲۴ع‍ میں “فتح اللہ صائغ” نامی شخص کو دعوت ضیافت دے کر اس کو قتل کیا اور اس کا خون عید فصح کے لئے جمع کیا۔ یہ عمل سنہ ۱۸۲۶ع‍ میں انطاکیہ اور ۱۸۲۹ع‍ میں حماہ میں دہرایا گیا۔
۱۸۳۴ع‍ میں ایک اس وقت کے شام کے شہر طرابلس میں ـ جو اس وقت لبنان کا حصہ ہے ـ ایک یہودی عورت نے جب یہودیوں کی خونخواری اور بےگناہ بچوں کا دردناک قتل اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ دینی یہود سے برگشتہ ہو کر عیسائی ہوگئی اور “راہبہ کیترینا” کے نام سے مشہور ہوئی اور اسی نام سے دین نصاری پر دنیا سے رخصت ہوئی۔ اس خاتون نے یہودیوں کے انسانیت سوز جرائم اور انسانی خون بہانے کی یہودی پیاس کے سلسلے میں اہم یادداشتیں لکھیں اور ان یادداشتوں میں ان جرائم اور انسانیت پر ان کے مظالم کی تشریح کی ہے۔ اس کے بیان کردہ واقعات میں انطاکیہ، حماہ اور طرابلس کے واقعات بھی شامل ہیں جن میں یہودیوں نے دو عیسائی بچوں اور ایک مسلمان لڑکی کو قتل کرکے ان کا خون حاصل کیا۔

برطانیہ
سنہ ۱۱۴۴ع‍ میں نارویچ (Norwich) کے علاقے میں ایک ۱۲ سالہ بچے کی لاش ملی جس کے بدن کے مختلف حصوں میں شگاف ڈال دیئے گئے تھے اور ان سے خون نکالا گیا تھا۔ یہ یہودیوں کی عید فصح کا دن تھا جس کی وجہ سے نارویچ کے علاقوں کی نگاہ یہودیوں کی طرف گئی اور تمام مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، اور معلوم ہوا کہ اس بچے کے تمام قاتلین یہودی تھے۔ اس واقعے کی دستاویزات آج بھی برطانوی گرجوں میں موجود ہیں۔
علاوه بر این در سال ۱۱۶۰ع‍ میں ایک طفل کی لاش برطانیہ کے علاقے گلوسٹر (Glowcester) سے برآمد ہوئی جسے صلیب پر چڑھایا گیا تھا اور اس کے بدن پر لگے متعدد زخموں سے اس کا پورا خون کھینچ لیا گیا تھا۔ ۱۲۳۵ع‍ میں چند یہودیوں نے ایک بچے کو نورویچ کے محلے سے اغوا کرکے چھپایا تاکہ مناسب موقع پا کر اس کو قتل کردیں اور اس کا خون کھینچ لیں۔ لیکن جس وقت اس کا ختنہ کررہے تھے اور قتل کے لئے تیار کررہے تھے، عوام نے قاتل یہودیوں کو قابو کرلیا اور بچے کو موت کے منہ سے باہر نکالا۔
یہودیوں نے ۱۲۵۵ع‍ میں برطانیہ کے رہائشی علاقے “لنکن” (Lincoln) سے ایک بچہ اغوا کیا۔ یہ عید فصح کے ایام تھے۔ یہودیوں نے بچے پر تشدد کیا، اسے صلیب پر چڑھایا اور اس کا پورا خون کھینچ لیا۔ بچے کے والدین نے اپنے بچے کی لاش جوپین (Joppin) نامی یہودی کے گھر کے قریب واقع ایک کنویں سے برآمد کی۔ جوپین نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنے دوسرے ساتھیوں کا نام و نشان بھی بتا دیا۔ ۹۱ یہودی درندگی کی اس واردات میں ملوث پائے گئے اور ۱۸ یہودیوں کو پھانسی دی گئی۔
برطانیہ میں یہودیوں کی خونخواریاں ۱۲۹۰ع‍ تک جاری رہیں، یہاں تک کہ اس سال آکسفورڈ کے علاقے میں یہودیوں نے ایک عیسائی بچے کو قتل کیا اور اس کا خون کھینچ لیا۔ یہ جرم ایڈورڈ اول شاہ انگلستان (Edward I of England) کے تاریخی حکم پر منتج ہوا اور اس نے برطانیہ سے تمام یہودیوں کی جلا وطنی کا حکم دیا۔
سنہ ۱۹۲۸ع‍ میں برطانیہ کے شہر منچسٹر میں اوڈنیل (Odenil) نامی بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کے بدن میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہ تھا۔ یہ واقعہ یہودیوں کی عید سے صرف ایک دن پہلے رونما ہوا تھا۔
مارچ ۱۹۳۲ع‍ میں عید فصح سے ایک دن پہلے، ایک بچے کی لاش ملی جس کو اسی انداز سے مارا گیا تھا اور اس واقعے میں کئی یہودیوں کو مجرم ٹہرایا گیا اور انہیں سزائیں ہوئیں۔