ترکیہ سعودی تعلقات کے نشیب و فراز
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک اعلیٰ سیاسی اور اقتصادی وفد کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ ترکی کے صدر خلیج فارس کے ممالک کے تین روزہ دورے کے پہلے مرحلے میں پیر (17 جولائی) کو سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچے۔ انقرہ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کے علاوہ 200 ترک تاجر بھی اس تین روزہ دورے میں ترکی کے صدر کے ہمراہ ہیں۔ سعودی عرب کے بعد ترک وفد بالترتیب قطر اور متحدہ عرب امارات جائے گا۔ رجب طیب ایردوان کے خلیج فارس کے عرب ممالک کے دورے کا اصل مقصد ترکی کے موجودہ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لئے بیرونی سرمائے کو جذب کرنا ہے۔ ترک میڈیا اور حکام نے 50 ارب ڈالر جذب کرنے کو اس سفر کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ خلیج فارس کے تین ممالک کے دورے سے قبل ترکی کے صدر نے کہا: “وہ ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے اور ان تینوں ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدوں کو حتمی شکل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔”
ترکیہ کے اعلیٰ سطحی وفد کا سعودی عرب کا دورہ ایسے حالات میں کیا گیا، جب ترکی کو اقتصادی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انقرہ حکومت کے حکام کی کوششوں کے باوجود ہر امریکی ڈالر کی قیمت تقریباً 27 لیرا تک بڑھ گئی ہے۔ انتخابات سے قبل ترک حکومت ڈالر کو 20 لیرا کی سرحد پر رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ ترکیہ کے خلیج فارس کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریق باہمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے باہمی تعلقات کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔ ترکیہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں اس وقت سرد مہری آگئی تھی، جب استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہوا تھا اور ترکی نے اس پر تحقیقات کرانے کا ارادہ کیا تھا۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے سیاسی اور معاشی تعلقات نچلی سطح پر آگئے تھے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان پہلے ترکی میں اس جرم کے مرتکب افراد اور رہنماؤں کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتے تھے، لیکن چار سال گزرنے کے بعد رجب طیب اردگان کی حکومت دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سعودی عرب کے جن مطالبات کو ماننے پر مجبور ہوئی، ان میں پہلا جمال خاشقجی کے کیس کو بند کرکے اس جرم کا کیس ریاض بھیجنا تھا۔ اس اقدام کے بعد اردوغان کو گذشتہ سال اپریل میں سعودی عرب جانے کی اجازت ملی اور ریاض کے سرکاری حکام سے بات چیت شروع ہوئی۔ ترکیہ، سعودی عرب اور خطے کے ممالک کے میڈیا پروپیگنڈے کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ ترکیہ کو اقتصادی بحران کی وجہ سے خلیج فارس کے ممالک کی اشد ضرورت ہے۔ کچھ حقائق کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یہاں تک کہ قطر کو بھی ترکیہ کی امداد کی ضرورت ہے۔ یہ ممالک ترکی میں تھوڑی سی سرمایہ کاری کرکے اپنی تمام فوجی ضروریات ترکی سے پوری کرسکتے ہیں۔
خلیج فارس کے عرب ممالک اور ترکیہ کے درمیان تعلقات اب بھی کمزور ہیں اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتے ہیں۔ یہ عارضی تعلقات قلیل مدتی ضروریات کی بنیاد پر قائم ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاض کے نیوز میڈیا نے گذشتہ سال جنوری میں اعلان کیا: “سعودی حکام نے ترک صدر رجب طیب اردگان کی تعریف کرنے پر ایک ماہر تعلیم کو اس ملک سے نکال دیا ہے۔” اگرچہ ریاض کے میڈیا نے یونیورسٹی کے اس پروفیسر کا نام ظاہر نہیں کیا، لیکن سعودی حکومت کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکام ترکیہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو قابل کنٹرول سطح پر برقرار رکھنے کے قائل ہیں۔ ترکیہ کا معاشی بحران جب تک موجود رہے گا، وہ ان تعلقات کو اہمیت دیں گے۔ خلیج فارس کے عرب ممالک جو اپنی آمدنی کا 90% سے زیادہ حصہ خام تیل کی فروخت کے ذریعے فراہم کرتے ہیں۔ ترک وفد کی حالیہ ملاقات کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان 9 مفاہمت کی یادداشتوں (MOU) پر دستخط کیے گئے، جن میں توانائی، رئیل اسٹیٹ، تعمیرات، تعلیم، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صحت کے شعبوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کی وزارت دفاع نے بھی ڈرون بنانے والی ترک کمپنی “Baykar” کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے کا اعلان کیا اور ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب نے اردگان کے دورہ ریاض کا اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ دونوں فریقوں کی طرف سے مفاہمت کی یادداشتوں پر عمل درآمد میں ایک طویل وقت لگے گا، کم از کم چھ ماہ، اس وقت کے دوران فریقین کے پاس معاہدے کے حالیہ دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے جواب دینے کا کافی وقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب توانائی کے وسائل خصوصاً خام تیل کے حامل ملک کے طور پر خطے میں اپنے لیے ایک محفوظ مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے برعکس ترکیہ، جس کے پاس توانائی کے وسائل کی کمی ہے، مغربی ایشیاء میں توانائی کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔
وہ اس طرح عالمی سطح پر اعتبار حاصل کر رہا ہے اور یہ سعودی رہنماؤں کے لیے یہ کوئی زیادہ خوشگوار عمل نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاض کے حکام نے اس حوالے سے ترکیہ کے لیے مختلف منصوبے تیار کیے ہیں، جن پر وہ وقت کے ساتھ عمل درآمد کریں گے۔ مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ علاقائی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ترکی کے اعلیٰ سطح کے وفد کا سعودی عرب کا دورہ انقرہ حکومت کے مقابلے میں ریاض حکومت کے لیے زیادہ فائدے کا حامل ہوگا۔ پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ انقرہ حکومت سعودی عرب کے سفر سے اپنے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کرسکتی ہے۔
تبصرہ کریں