تریپورہ کے موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری (پہلی قسط)

ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم سب کو اپنے ملک کی خاطر اپنے وطن کی خاطر اپنے قومی تشخص کی خاطر دین کے تعلیمات کی خاطر اٹھنا ہوگا اور پر امن طریقے سے اپنا احتجاج درج کرانا ہوگا ،اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا توحید کے پرچم تلے جمع ہوکر شان رسالت میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف منظم مہم چلانی ہوگی ورنہ ہمارا یہی حال ہوتا رہے گا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ دنوں ہندوستان کی ریاست تریپورہ میں جو تشدد آمیز کاروائیاں ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے آخر اپنے ہی ملک میں کب تک ہم کچھ خاص لوگوں کی زیادتی کا شکار ہوتے رہیں گے ، کب تک ایک آزاد ملک میں مسلمان ہونا جرم رہے گا کب تک ہم ظلم سہتے رہیں گے ، اگر ملک کے دیگر مختلف علاقوں میں ہم محفوظ ہیں تو کیا اپنے ان بھائیوں کو بھول جائیں جن پر اسی ملک میں دیگر علاقوں میں انکے مذہب کی بنیاد پر ظلم ہو رہا ہے؟ کیا ہماری کوئی ذمہ داری بھی بنتی ہے یا نہیں؟ ہر ایک صاحب احساس ان سوالوں کے جواب میں یہی کہے گا کیوں کر ہم اپنے بھائیوں کو بھول سکتے ہیں کیوں کہ منصوبہ بند طریقے سے ہونے والے ظلم کے خلاف خاموش رہ سکتے ہیں ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اس ملک میں جہاں ہر ایک کو اپنے دین و مذہب کی شناخت کے ساتھ رہنے کی آزادی حاصل ہے کس طرح کچھ لوگ نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں مسلسل بے گناہوں کو مارا اور ستایا جا رہا ہے دہشت و وحشت کا دیو دندناتا ہوا گھوم رہا ہے نہیں چلے گا نہیں چلے گا محمد ص کا نام نہیں چلے گا معاذ اللہ جیسے نعرے ہیں ایسے میں افسوس کی بات ہے کہ حکومت کی جانب سےاب تک کوئی خاص ایکشن سامنے نہیں آیا ہے اور حزب مخالف کی جماعتوں میں بھی ایک دو کے سوا ہر سو خاموشی ہے اور ساری بات ٹویٹر تک ہی محدود ہے کسی طرف سے کوئی ہم آہنگ و منظم آواز نہیں ہے جبکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے موثقہ اطلاعات کے مطابق کم از کم ایک درجن مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے یا انھیں جلایا گیا ہے اور متعدد مقامات پر مسلمانوں کے گھروں اور کاروبار پر حملے کیے گئے ہیں اور ان سب کے باوجود کسی کو پتہ نہیں یہ حملہ کرنے والے کون ہیں مساجد جلانے والے قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے والے یہ کون لوگ ہیں ، بعض کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر گھوم رہی ہیں اس کے باوجود ابھی تک کسی گرفتاری کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ کیا یہ اپنے آپ میں ایک المیہ نہیں ہے کہ ایک خاص شدت پسند جماعت کا جھنڈا لیکر لوگ نکلتے ہیں اور بستیوں میں آگ لگا دیتے ہیں مسجدوں کو نذر آتش کر کے اپنا جھنڈا میناروں پر لگا دیتے ہیں اس کے بعد بھی پولیس کو ثبوت نظر نہیں آتے ہیں کہ کس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے شرپسندوں کو کیسے لگام کسی جائے ؟
ٹھیک ہے کہ تریپورہ میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے قبل اکثریت کی جانب سے کبھی اقلیت کو ہراساں نہیں کیا گیا لیکن اس بار ایسا ہو رہا ہے کیا اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے اس لئے کہ یہاں پر بسنے والے لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کی ہے جو بے چارے خود ہی دوسرے ملک سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں وہ کیا کسی کے گھر کو برباد کریں گے وہ کیوں لوٹ مار کریں گے یقینا اگر ان میں کچھ لوگ تشدد پر آمادہ ہیں تو انہیں اکسایا گیا ہے اور یہ جو میڈیا کے ذریعہ بتایا جا رہا ہے کہ مقامی لوگ تریپورہ میں حالیہ تشدد کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعات کے ردعمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں یہ سراسر غلط ہے ۔ یہ دیکھ نہیں رہے ہیں انہیں نفرت کی عینکیں پہنا کر دکھانے کی کوشش کی جار ہی ہے جو بھی انصاف پسند لوگ ہیں سبھی نے بنگلا دیش میں ہندو بھائیوں کے ساتھ زیادتی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اورہم ایک بار پھر مذمت کرتے ہیں لیکن اسکا مطلب ایک غلط کام کے ذریعہ دوسرے غلط کام کا جواز فراہم کرنا تو نہیں ہوتا ہے ۔
تشدد تشدد ہے چاہے یہاں ہو یا دنیا کے کسی کونے میں ہو بے گناہوں کے گھروں کا جلانا کسی کے کئے کی سزا کسی اور کو دینا یہ کہاں کا انصاف ہے جہاں تک بنگلا دیش کی بات ہے تو یہ بات بھی دنیا نے محسوس کی دونوں جگہ پر جو ہنگامہ آرائی ہوئی ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بنگلادیش میں جو کچھ ہوا اس پر وہاں کی حکومت نے فورا کاروائی کی اور تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سختی سے کارروائی کرتے ہوئے ان سے مواخذہ کیا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے تشدد کے واقعات کے فوراً بعد ملک کی ہندو برادری سے ملاقات کی انکے مسائل کو جانا اس کے علاوہ حکومت نے کئی گرفتاریاں کیں اور وزرا نے متاثرہ ہندوؤں سے ملاقات بھی کی۔ لیکن تریپورہ میں بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہورہے ظلم و بربریت پر ہندوستان کی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو تریپورہ کے فسادات کو ایک خطرناک رخ دے رہی ہے اس لئے ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ غور کریں اور حل تک پہنچے کہ کیسے ان لوگوں کی بازآبادکاری کے لئے کچھ کیا جاسکتا ہے جنکے گھروں کو ویران کر دیا گیا کیسے ان لوگوں کا ساتھ دیا جا سکتا ہے جنہیں بے دردی سے نشانہ ظلم بنایا گیا ۔ یہ اس لئے اور بھی ضروری ہے کہ مظلوموں ہی کو ظالم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے چنانچہ جب اس علاقے میں مسلمانوں کی جانب سے مظاہرے کئے گئے تو انہیں بھی نفرتوں کے پجاریوں سے فرقہ واریت سے جوڑنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کے پرسکون مظاہروں کے بعد پولیس انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور مسلمانوں کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی گئی یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو ہر انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ملک کدھر جا رہا ہے مظلوموں کے ساتھ انصاف تو دور ہے اگر کوئی مظلوموں کے لئے آواز بھی بلند کر رہا ہے تو اسکی آواز بھی دبا دی جا رہی ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ جن مقامات پر شرپسندوں کے ذریعے دہشت کا ماحول بنایا جا رہا ہے، توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی جا رہی ہے وہاں پر ایسی کوئی بات نہیں ہے نہ کوئی دفعہ لگائی گئی ہے کہ شر پسندوں کو لگام دی جائے نہ ہی ان لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جو گھروں اور بستیوں کو آگ لگاتے گھوم رہے تھے جبکہ دکھانے کے لئے حکومت و ریاستی انتظامیہ کی جانب سے محض چند مقامات پر پولیس کی تعیناتی دِکھا کر یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب کچھ قابو میں ہے۔
ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم سب کو اپنے ملک کی خاطر اپنے وطن کی خاطر اپنے قومی تشخص کی خاطر دین کے تعلیمات کی خاطر اٹھنا ہوگا اور پر امن طریقے سے اپنا احتجاج درج کرانا ہوگا ،اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا توحید کے پرچم تلے جمع ہوکر شان رسالت میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف منظم مہم چلانی ہوگی ورنہ ہمارا یہی حال ہوتا رہے گا ۔

جاری ہے ۔