فاران: گذشتہ چند دنوں میں مقبوضہ فلسطین میں چار شہادت پسندانہ کارروائیاں انجام پائیں، جن میں سے دو تل ابیب کے مرکز میں انجام پائیں۔ ان شہادت پسندانہ کارروائیوں نے صیہونی رژیم کے سربراہان میں خوف اور وحشت کی فضا پیدا کر دی ہے۔ حماس اور اسلامی مزاحمتی بلاک نے نئی حکمت عملی کے تحت ٹارگٹ کلنگ کے مقابلے میں ٹارگٹ کلنگ پر مبنی شہادت پسندانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری کیا ہوا ہے۔ ان کارروائیوں کا مقصد تل ابیب میں خوف اور ناامنی پیدا کرکے اسلامی مزاحمتی بلاک کی ڈیٹرنس طاقت میں اضافہ کرنا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران غاصب صیہونی رژیم نے لبنان اور فلسطین کی اہم جہادی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس نے اسلامی مزاحمتی بلاک کو بھی ٹارگٹ کلنگ کے مقابلے میں ٹارگٹ کلنگ کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ لبنان کے اعلیٰ سطحی کمانڈر فواد شکر کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد اسلامی مزاحمتی بلاک غاصب صیہونی رژیم کو فوجی میدان میں جواب دینے کیلئے تیار تھا۔ لیکن دنیا کے مختلف سربراہان مملکت اور کچھ عرب ممالک کے سربراہان کی جانب سے اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ممالک کو مسلسل پیغامات بھیجے گئے اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ تناو میں مزید شدت پیدا کرنے سے گریز کریں اور اسرائیل پر براہ راست حملے کو فی الحال اپنے ایجنڈے سے نکال دیں۔ شہید اسماعیل ہنیہ کے بعد یحییٰ السنوار کو حماس کے سیاسی شعبے کا نیا سربراہ منتخب کیا جانا اس پیغام کا حامل تھا کہ حماس اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان سیاسی سازباز کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اس کے بعد مقبوضہ فلسطین میں شہادت پسندانہ کارروائیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
شہادت پسندانہ کارروائیوں کے اس نئے سلسلے نے صیہونی حکمرانوں کے ذہن میں اس سلسلے کی یاد تازہ کر دی ہے، جو 2002ء میں شروع ہوا تھا اور اس دوران روزانہ کی بنیاد پر تل ابیب میں شہادت پسندانہ کارروائیاں انجام پائی تھیں۔ اس وقت بھی خوف و وحشت کی شدت نے صیہونی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر ڈالی تھیں اور امریکہ اور کچھ یورپی ممالک نے تل ابیب میں شہادت پسندانہ کارروائیاں روکنے کے عوض حماس کو بہت سی مراعات دینے کی پیشکش کی تھی۔ 2002ء کا سال غاصب صیہونی رژیم کی تاریخ میں خوف اور وحشت کے سال کے طور پر محفوظ ہوگیا ہے، کیونکہ اس سال تل ابیب میں فوجی، سکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز کے ہائی ریڈ الرٹ کے باوجود حماس ہر روز شہادت پسندانہ کارروائی انجام دینے میں کامیاب ہو رہی تھی۔ اب بھی تقریباً ویسی ہی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
گذشتہ چند دنوں میں تل ابیب میں کئی گوریلا کارروائیاں انجام پا چکی ہیں۔ صیہونی وزیر جنگ یوآو گالانت کے قافلے کے روٹ پر ایک ٹرک میں نصب بم پھٹ گیا۔ یہ واقعہ تل ابیب کی اہم ترین سڑک یعنی تھیوڈور ہرتسل روڈ پر رونما ہوا ہے۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بم دھماکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے انجام پایا ہے اور اگر 15 سیکنڈ دیر سے انجام پاتا تو صیہونی وزیر جنگ اور اس کے ہمراہ بڑی تعداد میں جرنیل ہلاک ہو جاتے۔ یہ بم دھماکہ حماس اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے صیہونی حکمرانوں کیلئے اہم پیغام تصور کیا جاتا ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آج کے بعد اسلامی مزاحمتی شخصیات کے خلاف کسی بھی کارروائی کے بدلے میں تل ابیب کو نشانہ بنایا جائے گا۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے صیہونی رژیم کی فوجی چھاونیوں کو بڑی تعداد میں ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا ہے۔
یہ ڈرون طیارے ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے ذریعے الجلیل کے علاقے میں صیہونی فوجی چھاونیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی مزاحمت نے اسرائیل کے خلاف حقیقی ہائبرڈ جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ صیہونی فوج کی دو چھاونیوں پر حزب اللہ لبنان کے ڈرون حملے سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے جبکہ بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے خلاف یہ ہائبرڈ حملے اس وقت شروع کئے، جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی مذاکرات ناکامی کا شکار ہوچکے تھے اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ شروع کر دیا تھا۔ ماضی کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ صیہونی رژیم صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، لہذا اس سے اسی زبان میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔
خطے اور دنیا میں مختلف اقوام کی جدوجہد کی تاریخ سے ثابت ہوچکا ہے کہ استعماری طاقتوں سے سیاسی طریقے سے اپنے جائز مطالبات منوانے میں ناکامی کے بعد طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ گذشتہ 320 دن سے غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے، جبکہ اس دوران مذاکرات کے 14 مرحلے ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی رژیم کی جانب سے اسلامی مزاحمت کی جہادی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نے انہیں تل ابیب میں شہادت پسندانہ کارروائیاں انجام دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ حکمت عملی سیاسی عمل کے ذریعے جنگ بندی کے حصول میں مایوسی کا نتیجہ ہے۔ مغربی دنیا اور عالمی اداروں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی رکوانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ لہذا اب تل ابیب میں خوف کی راتیں شروع ہوچکی ہیں۔ یوں ممکن ہے کہ علاقائی اور عالمی طاقتیں غزہ میں جنگ بندی کیلئے سنجیدہ ہو جائیں۔
تبصرہ کریں