توہینِ صحابہ و اہلِ بیتؑ کا قانون، تاریخی پسِ منظر اور تحفظات (1)

ابتدائیہ: عالمی اداروں کے مطابق توہین مذہب کے قوانین میں سخت گیری کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 32 مسلمان ممالک سمیت دنیا کے 70 سے زائد ممالک نے توہین مذہب کی مختلف صورتوں کو جرم قرار دے رکھا ہے۔ جن میں سے 86 فیصد سے زائد ممالک نے توہین مذہب […]

ابتدائیہ:
عالمی اداروں کے مطابق توہین مذہب کے قوانین میں سخت گیری کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 32 مسلمان ممالک سمیت دنیا کے 70 سے زائد ممالک نے توہین مذہب کی مختلف صورتوں کو جرم قرار دے رکھا ہے۔ جن میں سے 86 فیصد سے زائد ممالک نے توہین مذہب کے جرائم پر قید کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔ پاکستان سمیت کئی ایک ممالک میں توہین مذہب کے جرائم پر موت کی سزا بھی مقرر ہے۔ مبصرین کا خیال ہے توہین مذہب کے یہ قوانین آزادی اظہار اور آزادی مذہب جیسے بنیادی انسانی حقوق کی پائمالی کا باعث ہیں۔ مبصرین کی ایک بڑی تعداد توہین مذہب کے قوانین کو ایک اہم مسئلے کی نظر سے دیکھتی اور اس پر حساس ہے۔ بعض ممالک نے پاکستان کو آزادی مذہب کے حوالے سے انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں قرار دے رکھا ہے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ منظم انداز میں آزادی مذہب جیسے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور توہین مذہب کے قوانین اس میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے توہین مذہب سے متعلق قوانین آزادی اظہار، آزادی عقیدہ و ایمان، آزادی مذہب جیسے بنیادی حقوق اور جرم و سزا کے درمیان تناسب، فئیر ٹرائل، مساوات اور عدم امتیاز جیسے قانونی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔

دوسری طرف ان قوانین کے مدافعین کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا تمام انسانی حقوق تحدید کے بعد قابل فہم اور عمل ہیں۔ ان کے بقول بنیادی انسانی حقوق اس وقت قابل فہم اور عمل ہیں, جب یہ دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کو متاثر نہ کریں، نیز عمومی اخلاق اور نظم عامہ کے خلاف بھی نہ ہوں۔ ان قوانین کے مدافعین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بننے والے جملہ مذہبی قوانین اگرچہ پہلی نظر میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں سے متصادم نظر آتے ہیں، لیکن یہ قوانین مذکورہ بالا تحدید کی روشنی میں قابل توجیہ ہیں اور خصوصا پاکستان میں بننے والے توہین مذہب کے قوانین دوسروں کے عقیدے کے تحفظ اور نظم عامہ جو کہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، کو بحال رکھنے کی غرض سے بنائے گئے ہیں، یعنی ان قوانین کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ مذہبی تصادم سے معاشرے کو بچانا بتایا جاتا ہے۔ جس کی ایک عمدہ مثال سنہ 1927 میں تعزیرات پاکستان کا حصہ بننے والے دفعہ 395 اے ہے, کہ جس سے قبل متحدہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ تصادم جب عروج پر پہنچا اور عدالتیں بھی موجود قوانین کی روشنی میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں ناکام رہیں تو مقننہ نے دوسروں کے مذہب اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کو جرم قرار دیا تاکہ اس فرقہ وارانہ لہر کو روکا جا سکے۔ یعنی پاکستان میں بننے والے توہین مذہب کے قوانین کا ایک بنیادی عامل نظم عامہ کو بحال رکھنا ہے۔

توہین مذہب کے کیسز کے اعداد و شمار کی، اگر بات کی جائے تو سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1947 سے لیکر 2021 تک 1500 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس عرصے میں 89 افراد کو توہین مذہب کے الزام پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتے ہیں, کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد کیسز صرف ایک صوبے پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں توہین مذہب کے جھوٹے مقدمات اور ماورائے عدالت قتل کی بڑھتی ہوئی تعداد کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1948 سے 1978 تک ملک میں توہین مذہب کے صرف 11 کیسز رپورٹ ہوئے, جبکہ اس عرصے میں توہین کے الزامات پر تین ماورائے عدالت قتل ہوئے, لیکن تب سے 2021 تک یہ تعداد 1300 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (ضیاءالحق) کے دورِ حکومت میں توہین مذہب کے نئے قوانین متعارف کروائے جانے کے بعد جہاں دیگر مذہبی اکائیوں کے خلاف بے بنیاد قانونی کاروائی کا دروازہ کھلا ہے, وہیں اس عرصے میں 311 شیعہ افراد کے خلاف بھی توہین مذہب کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے اکثر بے بنیاد ہیں۔ یاد رہے جو کیسز رپورٹ نہیں ہوئے یا شیعہ کمیونٹی کے خلاف ماورائے عدالت اقدامات ہوئے ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اس دوران توہین مذہب کے الزام پر جو فسادات ہوئے اور مسجدیں، امامبارگاہیں، دیگر مذہبی اکائیوں کی عبادگاہیں اور املاک جلائی گئیں، ان کی تعداد نیز سینکڑوں میں ہے۔ صرف ایک سال سنہ 2021 کے دوران یہ تعداد 20 سے زائد بتائی جاتی ہے۔

توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں حکومت کو یہ تجویز دی کہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے پر توہین مذہب کی اسی دفعہ کا اطلاق کیا جائے, جس کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہو۔ جو ان قوانین کے بے پناہ غلط استعمال کی دلیل ہے۔ توہین مذہب کے قوانین کے وسیع پیمانے پر غلط استعمال کے حوالے سے مبصرین کی طرف سے ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ تشکیل پاکستان سے اب تک توہین مذہب کے قانون کے تحت قائم مقدمات میں کسی ایک کیس میں بھی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اگر ماتحت عدالتیں ان مقدمات میں کسی کو سزا سناتی بھی ہیں تو اعلی عدلیہ ان سزاوں کو ثبوت ناکافی ہونے یا دیگر تکینکی وجوہات کی بنا پر ختم کر دیتی ہیں۔ یہ بات بھی کئی ایک رپورٹس میں سامنے آئی ہے کہ ماتحت عدلیہ ایسے کیسز میں جانبدار ہو جاتی ہیں یعنی وکلاء اور ججز تعصب اختیار کرتے ہیں یا عوامی دباو برداشت نہیں کرسکتے, لہذا ثبوت کافی نہ ہونے کے باوجود ماتحت عدالتیں ایسے کیسز میں سزا سنا دیتی ہیں جو اعلی عدلیہ سے ختم ہوجاتی ہیں۔ عدالتی ریکارڈ کو اس بات کی دلیل بنایا جاتا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت درج اکثر مقدمات بے بنیاد ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں توہین مذہب کے قوانین کے وسیع پیمانے پر غلط استعمال کے لیے یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ پارلیمان نے کئی دفعہ اس مسئلہ کو زیر بحث لایا اور یہ تسلیم کیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

آئین پاکستان اور مذہبی آزادی:
آئین پاکستان نے مذہب کے حوالے سے شہریوں کے چار قسم کے حقوق کی ضمانت دے رکھی ہے۔
الف) مذہب اختیار کرنے.
ب) مذہب کی پیروی کرنے.
ج) مذہب کی تبلیغ.
د) مذہبی اداروں کے قیام اور تشکیل کا حق۔
علاوہ ازیں آئین پاکستان نے تعلیمی ادروں میں بطور خاص بچوں کو ایسی مذہبی تعلیم سے ممنوع قرار دے رکھا ہے، جس مذہبی تعلیم کا تعلق ان بچوں کے مذہب سے نہ ہو۔ کوئی قانون یا ضابطہ کسی بھی شہری کو اس کے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اس کا یہ حق قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہو۔ مملکت پاکستان کی بالا دست دستاویز کے عنوان سے آئین پاکستان نے تین شرائط (امن عامہ، اخلاق اور قانون) کے تابع مذہبی آزادیوں کی ضمانت فراہم کر رکھی ہے۔ یعنی آئین پاکستان کے نزدیک بھی مذہبی آزادی شرائط کی تابع ہے اور بے پدر مادر مذہبی آزادی کا تصور نہیں ہے۔ مسئلہ معمولا وہیں پیدا ہوتا ہے کہ امن عامہ، قانون اور اخلاق جو مذہبی آزادیوں کے لیے بنیادی شرط ہے اس کی تعبیر و تشریح کیا ہے؟۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں مقننہ یا دیگر ریاستی ادارے قانون، امن عامہ اور اخلاق کی من مانی تشریح سے مذہبی آزادیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 36 میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ آرٹیکل 227 میں جہاں شخصی قوانین میں قرآن و سنت کو ہر مسلک کی اپنی تعبیر و تشریح کے مطابق نافذ کرنے کا کہا گیا ہے وہاں مذہبی اقلیتوں کے شخصی قوانین کو اس آرٹیکل سے خارج قرار دیا گیا ہے۔ خلاصہ کلام آئین پاکستان نے مذہبی آزادیوں کے تحفظ کا اپنے تئیں بہترین بندوبست کر رکھا ہے، لیکن آئین پر عملدآری کے وقت قانون کی تعبیر و تشریح میں خارجی عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جن کی بنا پر مذہبی آزادی کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔

عالمی قوانین اور مذہبی آزادی:
انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں جن کا پاکستان حصہ ہے، میں آزادی اظہار اور مذہبی آزادی کی بطور خاص تاکید کی گئی ہے۔ سول اور پولیٹیکل حقوق کے بین الاقوامی میثاق میں آزادی فکر، وجدان اور مذہب کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی میثاق میں قرار دیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے مذہب یا عقیدے کیوجہ سے کسی قسم کے امتیاز کا شکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی میثاق کے آرٹیکل 20 میں ہر ایسی ترغیب کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جو نسلی اور قومی کے علاوہ مذہبی منافرت اور امتیاز کا باعث ہو۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کچھ ماہ قبل وفاقی دارالحکومت میں کالعدم جماعتوں کے نمائندوں کے درمیان کھڑے ہوکر جس انداز میں فرقہ وارانہ تقریر کی تھی، وہ اس میثاق کی براہ راست خلاف ورزی اور انتہائی غیر سنجیدہ اور شدت پسندانہ رویہ تھا۔ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ وطن عزیز کی بالادست دستاویزات میں بنیادی انسانی حقوق بشمول مذہبی آزادی کے تحفظ کی مکمل ضمانت دی گئی ہے، لیکن عملی میدان میں ایسا نہیں ہے تو وہ اس طرح کے دیگر شواہدکی بنیاد پر ہی کہا جاتا ہے؛ یہ کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ بین الاقوامی معاہدات اور قوانین اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ آزادی اظہار اور آزادی مذہب و عقیدے پر امن عامہ یا اخلاق کے اصول کے تحت اگر کسی قسم کی قدغن، وہ مققنہ کے کسی اقدام سے ہو یا کسی انتظامی حکم سے لگانا ضروری ہو، تو انتہائی غور و فکر اور احتیاط کے بعد ایسا قدم اٹھایا جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا موضوع ہے۔ درحالیکہ اگر زیر بحث توہین صحابہ بل کے قومی اسمبلی سے منظوری کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے صرف 25 اراکین بعض کے نزدیک صرف 8 اراکین موجود تھے اور انہوں نے بھی بغیر کسی بحث، ضرورت و اہمیت کا جائزہ لیے بغیر اور فنی و تکنیکی نوعیت کے سوالات اور اس کے اثرات کو زیر بحث لائے بغیر یہ بل منظور کر لیا ہے، جو کہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے۔ سینٹ نے بھی قومی اسمبلی کی اس غفلت کا ازالہ نہیں کیا اور اسی صورت میں منظور کر لیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی اہم نوعیت کا بل جس سے ایک مسلک کے مذہب و عقیدے سے متعلق بنیادی انسانی حقوق کے لیے محدودیت ایجاد ہوتی ہے ایسے بل کو قائمہ کمیٹی میں بھیجا جاتا اور اس پر تفصیلی بحث و تمحیص ہوتی۔ سینٹ یا قومی اسمبلی کے باقاعدہ اجلا س میں صرف اراکین قانونی مسودوں پر غور کرتے ہیں جبکہ قائمہ کمیٹیوں میں حکومت اور اپویشن کے اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو بھی بلایا اور ان کی رائے لی جاسکتی ہے، یعنی اگر یہ بل قائمہ کمیٹی میں جاتا تو وہاں علمائے کرام اور اہل دانش کو بلا کر اس پر رائے زنی ہوتی اور انتہائی احتیاظ کے بعد اسے تمام تر ممکنہ نقائص سے محفوظ بنا کر سامنے لایا جاتا بلکہ یہ ایک اچھا موقع تھا کہ توہین کے قانون میں موجود نقائص کو دور کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اس قانون میں موجود تمام تر نقائص کے باوجود اس کو سنگین ترین جرائم کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ (جاری ہے)