جنرل قاآنی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یہودی ریاست کا خوف
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: چند روز قبل فوجی اور دفاعی امور کے مشہور صہیونی تجزیہ کار امیر بوخبوط نے چند روز قبل کہا تھا: ” شمال سے لے کر مغربی کنارے کے جنوب تک، شام، لبنان اور عراق سے خلیج فارس اور بحیرہ احمر تک، جنرل اسماعیل قاآنی کی کمان میں ہونے والے اقدامات میں اضافہ ہؤا ہے اور ایران اور اہم ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کے حالیہ تعاملات اور مفاہمات کے بعد ان اقدامات میں شدت آ رہی ہے”؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ علاقائی توازن میں ایران اور اس کے اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہے؛ چنانچہ کوئی پسپائی نہیں ہوگی اور ہوگا وہی جو درست ہے۔
فاران کے مطابق
علاقائی امور کے ماہر و تجزیہ کار ڈاکٹر سعد اللہ زارعی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: “تمام محاذوں پر ایک عمل جاری ہے، شمال سے لے کر جنوب تک اور مغربی کنارے تک، جنرل شہید سلیمانی کے جانشین شام، لبنان، عراق، خلیج فارس اور بحیرہ احمر کے معاملات میں مصروف عمل ہیں۔ ان کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور وہ مختلف محاذوں کے درمیان ربط و تعلق قائم کر رہے ہیں”۔ یہ اقتباس ہے ایک مکالمے میں سے جو صہیونی ریاست کے چینل “i12” نے نشر کیا۔ چار روز قبل صہیونی دفاعی تجزیہ نگار امیر بوخبوط (Amir Boukhbout) نے ان مذکورہ بالا نکات بیان کئے اور مغرب اور اس کے علاقائی حواریوں کے خلاف محور مقاومت کے اقدامات میں آنے والی شدت کے حوالے سے خبردار کیا۔
جنرل سلیمانی کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی تجاویز
تین سال قبل امریکی اور صہیونی باہمی معلوماتی مبادلوں کے بعد اس “تزویراتی توجیہ” پر پہنچے تھے “اسلامی جمہوریہ ایران کی اندرونی اور بیرونی کامیابیاں جنرل الحاج قاسم سلیمانی سے وابستہ ہیں، اور انہیں قتل کیا جائے تو ایران کی کامیابیوں کا دور اختتام پذیر ہوگا”۔
برطانوی نژاد امریکی مائیکل نائٹز (Michael Knights) – جو جامعاتی شخصیت جو تنازعات کا تجزیہ کار بھی ہے اور مغربی حکومتوں کا پالیسی مشیر بھی اور عراق میں امریکہ کا تحقیقاتی اور انٹیلیجنس افسر بھی، – نے سنہ 2019ع کے ابتدائی مہینوں میں امریکی وزارت جنگ کے اہلکاروں کے لئے 50 صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ پیش کی جس میں اس نے کہا تھا: “میں اس سے پہلے جنرل سلیمانی پر قاتلانہ حملے کو مفید نہیں سمجھتا تھا لیکن حالیہ جائزوں اور عراق میں متعدد افراد سے بات چیت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عراق میں ایران کی تقریبا تمام کامیابیاں قاسم سلیمانی کے اقدامات کے مرہون منت ہیں اور اگر انہیں منظر سے ہٹایا جائے، تو چونکہ ان کا کوئی بھی متبادل نہیں ہے، لہٰذا، عراق میں ایران کے تزویراتی اقدامات کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا”۔
نائٹس نے لکھا تھا: “میں اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ امریکہ کو قاسم سلیمانی کے قتل کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی، لیکن آخرکار اس اقدام کے فوائد اس کے نقصانات سے زیادہ ہیں”۔
شہید الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد
امریکیوں نے جنرل الحاج قاسم سلیمانی کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر شہید کیا تو ابتداء میں، صہیونی ریاست نے، اسلامی جمہوریہ ایران کی شدید انتقامی کاروائی کے خوف سے، اپنے کردار کا انکار کر دیا، لیکن کچھ عرصہ بعد اس نے اپنے کردار کا اقرار کیا اور بدنام زمانہ صہیونی جاسوسی ادارے، موساد، کے سابق ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ “ہم قاسم سلیمانی کے قتل کے وقت اور مقام سے آگاہ تھے”۔ اور چار روز قبل بھی جب غاصب صہیونی فوج کے ٹی وی چینل نے فاش کیا کہ “اسرائیل شام، لبنان اور عراق میں جنرل سلیمانی کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات کی فراہمی پر مامور تھا”۔
اب دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور صہیونی ریاست کے اعلیٰ فوجی حکام آج کیا کہتے ہیں، کیا وہ نائٹس جیسوں کے پیشگی جائزوں سے متفق ہیں؟
چند دن قبل سابق امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس (David Petraeus) – جو جنرل سلیمانی کی شہادت کے وقت سینٹ کام کا کمانڈر تھا – نے ایک انٹرویو میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ “جنرل سلیمانی کے قتل کا امریکی منصوبہ کامیاب نہیں رہا اور ایران کی علاقائی پیشرفت کا راستہ نہیں روک سکا”۔
پیٹریاس کے انٹرویو کے دوران ہی صہیونی ٹی وی پروگرام میں صہیونیوں کے مشہور عسکری تجزیہ کار امیر بوخبوط کے جائزے کے حوالے سے کہا گیا کہ “شمال سے لے کر مغربی کنارے کے جنوب تک، شام، لبنان اور عراق سے خلیج فارس اور بحیرہ احمر تک، جنرل اسماعیل قاآنی کی کمان میں ہونے والے اقدامات میں اضافہ ہؤا ہے اور ایران اور اہم ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کے حالیہ تعاملات اور مفاہمات کے بعد ان اقدامات میں شدت بھی آ رہی ہے”۔
اسلام کے سربلند جرنیل الحاج اسماعیل قاآنی، شہید جنرل سلیمانی کے جانشین کے طور پر قدس کور کے کمانڈر ہیں۔ ان کی تقرری کے چالیس مہینے بعد صہیونیوں اور امریکیوں کے یہ اعترافات، اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نہ صرف جنرل سلیمانی کا مشن جاری ہے بلکہ یہ مشن آج، پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں انداز سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک صہیونی اخبار نے لکھا تھا کہ “خاموش جرنیل مختلف مسائل میں پوری طاقت سے ظاہر ہوتا ہے، اور اس نے محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کو یمن، عراق، شام اور فلسطین میں ناقابل واپسی مقام تک پہنچایا ہے”۔
ہم یہاں اس قسم کے الفاظ کی تصدیق کا ارادہ نہیں رکھتے، کیونکہ ان اعترافات سے نفرت و عداوت کی بدبو آتی ہے، اور اس کے اندر جنرل قاآنی اور محور مقاومت کے خلاف دوسروں کو تحریک و ترغیب دلانے کا عنصر چھپا ہؤا ہے، اور ان باتوں سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ جنرل شہید سلیمانی کا مشن ایران اور خطے میں جاری و ساری ہے اور جنرل قاآنی کی کامیابیوں کا طول و عرض اور عُمق جنرل سلیمانی کی کامیابیوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے، جو بلا وجہ نہیں ہے۔
جنرل سلیمانی – رحمت اللہ علیہ – نے اپنی شہادت سے چار سال قبل بیان فرمایا کہ “ایک پڑوسی ملک کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک اجلاس میں، ایک دوسرے پڑوسی ملک کے بارے میں بات چیت ہو رہی تھی اور جب یہ مباحثہ ایک دشوار مرحلے کو پہنچا تو اس ملک کے وزیر خارجہ نے حقارت بھرے لہجے میں مجھ سے مخاطب ہو کر کہا: «جناب سلیمانی! ہماری نسبت آپ کی بالادستی کا سبب یہ ہے کہ آپ ٹیکٹک میں بہت قوی ہیں، اور آپ کا نقص یہ ہے کہ آپ ایک تزویراتی شخصیت (Strategist) نہیں ہیں!» … جبکہ دوست دشمن اعتراف کرتا ہے کہ جنرل سلیمانی ایک اعلیٰ پائے کے اسٹراٹجسٹ اور ٹیکٹک کی دانش میں اپنی مثال آپ تھے … اور میں [شہید سلیمانی] نے ان سے کہا: “میرا اسٹراٹیجسٹ ہونا ضروری نہیں ہے، یہی کافی ہے کہ میں ٹیکٹکس پر خوش اسلوبی سے کام کرتا ہوں، کیونکہ میرے اوپر ایک اسٹراٹجسٹ موجود ہے، وہ اسٹراٹیجی دیتا ہے اور میں میدان میں اسی اسٹراٹیجی پر عمل کرتا ہوں”۔
یہی جنرل سلیمانی کے مشن کے جاری رہنے اور ان کی شہادت کے بعد تیز رفتار پیش قدمی کا اصل راز ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے اس گتھی کو سلجھا دیا ہے۔ ہم جب ان کی تقریبا 36 سالہ قیادہ پر نظر ڈالتے ہیں اور اس تاریخ کے مختلف اجزاء کو ایک دوسرے کے ساتھ جمع کرتے ہیں، اس حقیقت کا بخوبی ادراک کر لیتے ہیں کہ انھوں نے مختلف امور و معاملات کو بغیر کسی نقص کے، آگے بڑھایا ہے۔ وہ بہت پر عزم اور صاحب ہمت اور حوصلہ مند ہیں، جو بدلتے ہوئے حالات میں بدلا نہیں کرتے؛ اور اس پہلو نے آنجناب کی ذاتی صلاحیت کو عیاں کر دیا ہے۔
اس دوران ایران میں بہت سے لوگ سیاست کے آسمان پر ظاہر ہوئے، اور بظاہر دانشمندانہ آراء و نظریات پیش کئے اور اپنے موقف کی حقانیت پر کئی گواہوں کو اپنے گرد جمع کیا۔ ایک زمانے میں ایران کے ایک سابق صدر شامی صدر بشار الاسد سے رابطہ کرنے تک کو نقصان دہ سمجھتے تھے اور ان کی حمایت کو تزویراتی غلطی سمجھتے تھے، اور کئی لوگوں نے ان کی تعریف بھی کی تھی؛ لیکن آج، عرصہ 10 سال گذرنے کے بعد، کسی کو بھی شک نہیں ہے کہ شام کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف کامیاب ترین تھا اور یہ موقف ایران اور خطے کے مفاد میں تھا۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) اور امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے – جو حساس مراحل میں دیدہ ور پاسبانوں کی طرح، جو طویل فاصلے تک کی صورت حال کی نگرانی کی صلاحیت رکھتے ہیں – اپنی قوتوں کی فعالیتوں کو منظم کئے رکھا، اور آگے بڑھایا جبکہ ان کے پاس کچھ با اثر افراد بھی تھے، جو ان پر نکتہ چینی کرتے تھے!
شہید سلیمانی کا مشن اس لئے جاری ہے کہ ایک طرف سے اس مشن کا راہنما اس مشن کے تسلسل کی زعامت و قیادت بھی کرتا ہے اور دوسری طرف سے اس مشن (اور اس راستے) کی حقانیت اور درستی ثابت ہو چکی ہے، اور وہ مشن اور وہ راستہ دشمن کی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنانے کے لئے مقاومت و مزاحمت کا راستہ ہے۔ یہ مقاومت کے راستے کی حقانیت ہے جس کی وجہ سے آج سے تین دن پہلے، “عرب لیگ” مصری سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط کو دو ٹوک الفاظ میں اعتراف کیا کہ “بشار الاسد، باغیوں کے خلاف کامیاب ہو چکے ہیں اور عرب لیگ میں شام کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ [واضح رہے کہ عرب لیگ کے زیادہ تر ممالک شام میں دہشت گرد باغیوں کی حمایت کرتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ وہ بہت جلد صدر اسد کا تختہ الٹ کر شام کو لیبیا جیسے انجام سے دوچار کریں گے]۔ اور یہ سب مزاحمت اور استقامت کا نتیجہ ہے کہ جس نے امریکیوں کو بھی اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ مقاومت نے ایران کو ایشیائی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے، اور ایران کے خلاف مغرب کی پابندیوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ یہ مقاومت و استقامت ہی کا نتیجہ ہے جس نے یمن پر مسلط کرنے والے سعودی عرب کو – آٹھ سالہ جارحیت اور 750 ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد، – ایران کے خلاف ہر محاذ میں لڑنے کی پوزیشن سے، دو طرفہ بات چیت اور تزویراتی سمجھوتے کی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئے کہ جس چیز نے سعودی عرب کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ جس راستے پر وہ گامزن ہو چکا ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ تھی کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی اصولی پالیسیوں کا شدت سے پابند رہا ہے اور دوسری طرف سے یمنیوں نے آٹھ سالہ سعودی جارحیت کے دوران مظلومانہ مزاحمت کے دوران انہیں اپنے کئے پر نادم کر دیا ہے اور ان دو موضوعات کو سعودی عرب کے مسئلے ان دو اہم وجوہات کو نظر انداز کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مقاومت کے عظیم مشن نے ہی ایران کو عالمی سطح پر فعالانہ کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، اور آج ایران جس فورم کا بھی رکن ہے اس فورم کے اراکین اس کی رکنیت کو اپنے لئے غنیمت سمجھتے ہیں۔
اگر آج ایران نے عالمی سیاست میں اہم اور نمایاں حیثیت حاصل کی ہے تو اس کا بنیادی سبب مقاومت و مزاحمت ہے؛ جس کا جاری رکھنا ایران کے لئے بھی اور عالم اسلام کے لئے بھی، شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ امت جس قدر زیادہ مقاومت و استقامت کرے گی، اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور عالمی سطح پر عالم اسلام کو حاصل ہونے والے فوائد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اس ہفتے کے آغاز میں میں صہیونی ٹیلی وژن کے پروگرام میں ہونے والے اس مکالمے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ “جنرل اسماعیل قاآنی فلسطین سے لے کر عراق تک اور خلیج فارس سے بحیرہ احمر تک کے محاذوں کو متحد کر رہے ہیں، ایران اور مقاومت کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور ان کا راستہ روکنے والا کوئی بھی نہیں ہے”؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ علاقائی توازن میں اسلامی جمہوریہ ایران اور مقاومت کا پلڑا بھاری ہو چکا ہے؛ چنانچہ پسپائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ہوگا وہی جو درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ڈاکٹر سعد اللہ زارعی
تبصرہ کریں