فاران: امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم صیہونی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات میں ایک معاہدے تک پہنچنے کے راستے پر ہیں۔ جوبائیڈن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تناظر میں انہوں نے ایک ایسے عالم میں یہ بات کہی ہے کہ امریکہ، صیہونی حکومت کی ہمہ جہت سیاسی، فوجی اور ہتھیاروں کی مدد کر رہا ہے، تاکہ وہ جنگ کو مزید جاری رکھ سکے۔ غزہ جنگ اب اپنے دسویں مہینے کے اختتام پر ہے۔
بائیڈن حکومت نے بارہا اسرائیل کے دفاع کے نام نہاد حق پر زور دیا ہے اور اسی بہانے اس نے صیہونی حکومت کو امریکہ کے بنائے ہوئے جدید ترین ہتھیار فراہم کیے ہیں، جن میں پانچویں نسل کے F-35 لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے حال ہی میں تل ابیب کے ساتھ تقریباً 19 بلین ڈالر مالیت کے اسٹرائیک فائٹر طیاروں کے جدید ترین ماڈل F-15 کی فراہمی کا معاہدہ کیا ہے۔ یقیناً یہ صرف جو بائیڈن کی پالیسی نہیں ہے بلکہ ان کی نائب اور 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس نے بھی اس پالیسی کو جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔
کملا ہیرس نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ آئندہ انتخابات جیتتی ہیں تو اپنے منصوبوں اور پالیسیوں کے بارے میں وہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کی پالیسی کو تبدیل نہیں کریں گی۔ گزشتہ چند مہینوں میں غزہ میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد بالخصوص بچوں اور خواتین کی تعداد 40 ہزار سے زائد تک پہنچنے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے بظاہر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی پروگرام کے مسودے میں، جو جولائی کے وسط میں شائع ہوا تھا، میں بھی غزہ میں “فوری اور دیرپا جنگ بندی” اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تاہم، اس میں غزہ کے 40,000 سے زائد مارے جانے والے ان باشندوں کا ذکر نہیں کیا گیا، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں اور جو حالیہ جنگ کے دوران شہید ہوئے۔ اس مسودے میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی امداد محدود کرنے کی ضرورت کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت اور اس حکومت کی جانب سے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کے باوجود، بائیڈن حکومت اور سینئر امریکی حکام نے محض انتباہات کا اظہار کیا ہے جو تل ابیب کے لیے غیر موثر ہیں۔
امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا استعمال نہیں کیا۔ دریں اثنا، غزہ جنگ میں جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ساتھ ساتھ امریکہ کو اس ثالثی گروپ کا تیسرا رکن سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین اقدامات میں، دوحہ قطر اجلاس جمعرات اور جمعہ 15 اور 16 اگست کو منعقد ہوا، جس میں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی بحالی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے امریکہ، مصر، قطر اور اسرائیل نے تبادلہ خیال کیا۔
اس کے بعد 25 اگست کو قاہرہ میں غزہ جنگ بندی مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہوگئے تھے اور حماس اور اسرائیل نے ثالثوں کی جانب سے پیش کیے گئے متعدد شرائط پر اتفاق نہیں کیا تھا، تاہم وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ورکنگ گروپ کی سطح پر قاہرہ مذاکرات اب بھی جاری ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات میں شامل فریقین کے ثالثی ورکنگ گروپس نے گزشتہ بدھ سے ایک بار پھر دوحہ میں اجلاس منعقد کیا ہے۔
غزہ جنگ کے گیارہویں مہینے میں بھی غزہ پٹی کے مختلف علاقوں میں صہیونی فوج اور مزاحمتی گروہوں بالخصوص حماس کے ارکان کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے 7 اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس تحریک کو تباہ کرنے اور صہیونی قیدیوں کی واپسی کے دو اعلان کردہ اہداف کے ساتھ اس جنگ کا آغاز کیا تھا، لیکن وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے غزہ پٹی کے خلاف جنگ میں پیشرفت اور صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اس حکومت کے وزیر اعظم “بنیامین نیتن یاہو” کی طرف سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ پچھلے گیارہ مہینوں میں جنگ جیتنے اور حماس کو تباہ کرنے کے تمام دعوے خالی اور کھوکھلے تھے۔
اس کے ساتھ ہی ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو کو اندرونی دباؤ کا سامنا ہے، خاص طور پر صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ اور ان کے مخالفین کی طرف سے، جنہوں نے آخری کارروائی میں ان کے خلاف بہت بڑا مظاہرہ کیا، جس میں 350,000 افراد سے زیادہ افراد نے شرکت کی، نیتن یاہو پر بیرونی دباؤ، خاص طور پر بائیڈن کی طرف سے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے، البتہ بائیڈن حکومت کی طرف سے غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کی خواہش انتخابی اہداف کے مطابق ہے اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں اور عربوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نوجوان، خاص طور پر طلباء اور دوسرے گروہوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے جوبائیڈن جنگ بندی کی باتیں کر رہا ہے۔ کملہ ہیرس کو بطور ڈیموکریٹک امیدوار 2024 کے صدارتی انتخابات میں جیتنے کے لیے ان ووٹوں کی اشد ضرورت ہے۔
تبصرہ کریں