حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ زہرا (س) کی شادی کا معیار
یکم ذی الحجۃ تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین دن ہے اس دن پروردگار عالم نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ذریعے سلسلہ امامت کو سلسلہ نبوت سے متصل کیا۔ حضرت علی اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھما کا عقد صرف زمینی عقد نہیں تھا بلکہ یہ دو آسمانی انوار کا باہمی اتصال تھا جس کے ذریعے حلقہ نبوت کو امامت سے پیوست کر دیا گیا۔ ہمیں اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنا ہے بلکہ یہ بات اجاگر کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ اسلام میں شادی کا صحیح معیار کیا ہے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے کس معیار کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کا رشتہ قبول کیا؟
بظاہر شادی کی رسومات؛ رشتہ مانگنا، مہر معین کرنا، جہیز تیار کرنا، عقد پڑھنا، رخصتی اور ولیمہ کرنا اور پھر ایک چھت کے نیچے زندگی کا آغاز کرنا وغیرہ وغیرہ ہیں۔ یہ ظاہری رسومات بھی اگر ہم حضرت علی اور حضرت زہرا کی زندگی میں دیکھیں تو ان میں بھی اطاعت اور بندگی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ شادی صرف چند روزہ زندگی گزارنے کا نام نہیں ہوتا بلکہ دین کو مکمل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے تو ایسے میں اگر اس ازدواجی زندگی کا آغاز ہی بے دینی اور غیر شرعی رسومات سے ہو تو ایسی ازدواجی زندگی کیا دین کے مکمل ہونے کا باعث بن سکتی ہے؟
آپ حضرت علی اور حضرت زہرا کی شادی کی ظاہری رسومات کو ہی دیکھ لیں، حضرت زہرا خاتم الانبیاء کی بیٹی ہیں، اس نبی کی بیٹی ہیں جو تمام انبیاء سے افضل ہیں، لہذا عرب کے بڑے بڑے سرمایہ دار آپ کا رشتہ مانگنے پیغمبر اسلام کے پاس آئے، لیکن پیغمبر بلکہ خود حضرت زہرا نے کسی کو مثبت جواب نہیں دیا۔ کیوں؟
شادی کا معیار مال و دولت ہے یا دینداری؟
اگر حضرت زہرا کے نزدیک شادی اور زندگی کا معیار مال و دولت ہوتا تو آپ یقینا عرب کے ان سرمایہ داروں اور مال داروں کے ساتھ شادی کرتیں جو سونے اور جواہرات کے ڈھیرے لگانے کو تیار تھے اس لیے کہ فاطمہ زہرا کسی معمولی انسان کی بیٹی نہیں تھیں۔
لیکن حضرت زہرا (ع) نے ایسے شخص کا انتخاب کیا جس کے پاس مال دنیا میں سے صرف تلوار اور زرہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ لیکن دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام کا ایمان، اخلاق، شجاعت، صداقت بے مثل و نظیر تھی، حضرت زہرا (س) نے معنوی صفات کو مادی چیزوں پر ترجیح دی اور حضرت علی کے رشتے کو قبول کیا۔ لہذا شادی کا معیار جو حضرت زہرا نے پیش کیا وہ ایمان ہے، اچھا اخلاق ہے، صداقت اور بندگی ہے۔ اس لیے کہ زن و شوہر کے اس اقدام سے انسانیت کی ایک نئی نسل کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر زن و شوہر کے نزدیک معیار زندگی معنوی امور ہوں گے تو آنے والی نئی نسل انہیں معنوی امور کے زیر سایہ پروان چڑھے گی لیکن اگر مادی امور کو معیار زندگی قرار دیا تو انسانیت کی ایک نسل مادیات میں غرق ہو جائے گی۔
شادی میں انتخاب کا حق
ایک اہم چیز جو حضرت زہرا اور مولا علی کی شادی میں نظر آتی ہے وہ حق انتخاب ہے۔ جو بھی حضرت زہرا کا رشتہ لے کر پیغمبر اسلام کے پاس آتا تھا تو پیغمبر اسلام حضرت زہرا سے مشورہ کرتے تھے آپ نے انتخاب کا حق حضرت زہرا کو دیا ہوا تھا۔ جبکہ عصر جاہلیت میں ایسا بالکل نہیں تھا۔ بیٹی کو اپنا شوہر انتخاب کرنے کا بالکل حق نہیں تھا، بلکہ آج بھی بہت ساری جگہوں پر لڑکی سے بالکل نہیں پوچھا جاتا اور والدین لڑکی سے پوچھنے اور اسے حق انتخاب دینے کو عیب سمجھتے ہیں۔ جبکہ اسلام نے لڑکی کو مکمل اختیار دیا ہے اور اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے لیے شوہر کا انتخاب کر سکے اگر وہ عقل و شعور کی منزل پر ہے۔
آسان شادی
پیغمبر اسلام نے کم سے کم خرچ اور آسان سے آسان رسومات کے ذریعے اپنی بیٹی کو بیاہ دیا اور شب رخصتی جناب بلال سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں میری امت میری بیٹی فاطمہ اور میرے داماد علی کی طرح شادی رچائے۔ پیغمبر کے نزدیک اس بات کی اہمیت نہیں تھی کہ زہرا و علی سجے دھجے مکان میں اکیلے زندگی گزاریں، رنگین دسترخوان پر کھانیں کھائیں اور قیمتیں لباس پہنیں، بلکہ پیغمبر اکرم کے نزدیک جو چیز قابل اہمیت تھی وہ زن و شوہر کا ایک دوسرے کو سمجھنا، ایک دوسرے کے لیے احترام کا قائل ہونا اور عشق و محبت کی بنیاد پر زندگی گزارنا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جو ازدواجی زندگی کو سعادتمند اور خوشبخت بناتی اور زندگی میں خوشیاں لاتی ہے۔
بقلم الف۔ عین۔ جعفری
تبصرہ کریں