دشمن کا تدریجی نفوذ اور اس کی علامتیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: دوستی و دشمنی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ ، جب سے انسان سے اس دنیا میں قدم رکھا ہے جب سے آپسی مفادات کے درمیان ٹکراو کی صورت پیدا ہوئی ہے تبھی سے دشمنیوں نے بھی جنم لیا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب دوستی و دشمنی کا معیار قوم قبیلہ و رنک و نسل کو بنایا جاتا تھا لیکن آج دوستی و دشمنی کی بنیاد نظریات پر ہے ، دنیا میں ہر طرف نظریات کا تصادم نظر آتا ہے ایسا نہیں ہے کہ قوم قبیلہ و رنگ و نسل کی بنیادوں پر اب دشمنیاں ختم ہو گئی ہوں وہ اپنی جگہ پر اب بھی قائم ہیں اور ہم وقتا فوقتا انکی بنیاد پر ٹکراو و تصادم کو بھی دیکھتے رہتے ہیں لیکن نظریاتی دشمنی کی بنیاد پر جو خون خرابہ ہورہا ہے اسکی بات ہی الگ ہے ۔حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی سے دشمنی ذاتی نہ تھی نہ قوم قبیلے سے کوئی دشمنی تھی پھر بھی آپکو جنگیں لڑنا پڑیں جن کے پیچھے نظریہ ہی کارفرما تھا ،یہ حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کارنامہ تھا کہ آپ نے ۲۳ سال کی مختصر سی مدت تبلیغ میں قوم قبیلہ و رنگ و نسل کے فرق کو مٹا کر اس جاہل معاشرے کو توحید کے محور تلے جمع کر دیا جو ذرا ذرا سی بات پر چالیس چالیس سال جنگوں کا تجربہ رکھتا تھا وہ لوگ جو اب تک قوم قبیلہ کی بنیادوں پر مال و منال و مقام و منصب و دنیا کے لئے لڑ رہے تھے وہی ہر چیز کو بھلا کر توحید کی بالا دستی کے لئے اہل باطل سے لڑتے نظر آئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اتنا بڑا انقلاب بپا کر دیا کہ جو کل تک ایک دوسرے کا منھ دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے وہی اب شانہ بشانہ توحید کے لئے دشمن خدا سے لڑنے اور راہ خدا میں شہادت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھنے لگے ، اسلام کی جتنے بھی جنگیں ہیں کسی میں بھی تلاش کرنے کے باوجود کہیں شخصی و ذاتی دشمنی کا پہلو نظر نہیں آتا ابتدائے اسلام سے لیکر اب تک ہر جگہ نظریہ کی بنیاد پر کلمہ گویوں سے دشمنی کی گئی ہے ، اور آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔ نظریہ کی بنیاد پر دشمنی جب بھی ہوئی ہے دشمن کو ہر اس جگہ شکست فاش ہوئی ہے جہاں ہم نے دشمن کے حربوں و اسکی نیرینگی چالوں کو پہچان کر بروقت فیصلہ لیا ہے اور دشمن کو دوستوں کے بھینس میں اپنی صفوں میں داخل ہونے سے روکے رکھا ہے ،اس لئے کہ دشمن جب دیکھ لیتا ہے کہ اب حق سے مقابلہ نہیں ممکن تو وہ تفنگ و تلوار و نیزے و بھالے لیکر نہیں آتا ہے وہ لبوں پر مسکراہٹ سجا کر ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیکر دوست کے روپ میں آتا ہے اور بڑی خاموشی کے ساتھ آتا ہے ، پیش نظر تحریر میں ہم نے بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کی روشنی میں اسی بات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ دشمن کس طرح دھیرے دھیرے خاموشی کے ساتھ ہمارے درمیان داخل ہو کر فتنوں کے شعلے بھڑکاتا ہے اور ہم کس طرح دشمن کے نفوذ کو بروقت اسکی شناخت کے ذریعہ روک سکتے ہیں ۔
دشمن شناسی کی ضرورت و اہمیت :
ہم غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ دنیا مقابلے کی جگہ ہے یہ رزم گاہ ہے اس میں بازی اس کی ہے جو بڑھ کر آگے کی چال ڈالے اور حریف کو پسپا کر دے اور اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہر قسم کے مقابلے کیلئے دشمن کی پہچان پہلی ضرورت ہے، وہ معاشرے جوآج گمنامی کا شکار ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں اگر ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو نظر آئے گا کہ ان کی تباہی اسی وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے دشمن کو پہچاننے میں غلطی کی اور آپ اگر کسی کامیاب قوم کو آگے بڑھتے اور تاریخ سے اس کی کامیابی کا راز معلوم کریں تو تاریخ یہی بتائے گی کہ کامیابی کے دیگر اصولوں کی رعایت کے ساتھ اس قوم کو ایک اور ہنر آتا ہے جس کی وجہ سے یہ کامیاب ہے وہ ہے دشمن کی صحیح شناخت اور اس کے حملوں کو پسپا کرنے کی طاقت۔ آج کے دور میں بھی بڑی طاقتیں اس بات پر بہت بجٹ لگاتی ہیں کہ دشمن کی شناخت حاصل کر سکیں لہذا پیچیدہ قسم کے سسٹم بنانے اور مٹانے کے بعد کہیں وہ ایسا فارمولہ بنا پاتی ہیں جس کے ذریعے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں اور یہی ان کی بڑی کامیابی کے طور پر جانا جاتا ہے کہ انہوں نے دشمن کو پہچان لیا ہے اور وہ اس کام کے لئے اربوں اور کھربوں کا بجٹ خرچ کر دیتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کی دنیا میں بھی یہ تسلیم شدہ اصل ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو دشمن کی شناخت ضروری ہے۔یقینا کسی بھی معاشرے یا فرد کی کامیابی میں ضروری ہے کہ مختلف پہلووں میں انسان یہ جان لے کہ اس کا دشمن کہاں اور کون ہے؟ اس لئے کہ جب تک انسان جانے گا نہیں اسے نقصان کہاں سے اور کون پہنچا رہا ہے تو اس کا سد باب نہیں کر سکےگا۔
انسان کی فطرت سے اس کا ماحول اس وقت تک سازگار نہیں ہوتا ہے جب تک اس پر حملہ کرنے والے کو نہ پہچانا جائے یہی وجہ ہے کہ انسان نے عالم طبیعت میں جب یہ پہچان لیا کہ مثلا اس کی طبیعت کے اضمحلال میں فلاں قسم کے میکروب اثر انداز ہوتے ہیں انسان کا بدن فلاں ماحول اور موسم میں حملوں کی زد میں ہوتا ہے تو انسان خود کو بچاتا ہے، انسان نے جب تک دنیا میں میکروب کی شناخت نہ کی تھی نہ جانے کتنے انسان انجانے میکروب و بیکٹریا کا شکار ہو کر چل بسے لیکن جب انسان نے پہچان لیا کہ میکروب کتنے قسم کے ہوتے ہیں اور انکا عمل کیا ہوتا ہے انکا سسٹم کیا ہے تو اب انسان نے اس کا علاج نکالا اسی لئے آج علم طب نے مختلف میکروب و جراثیم سے لڑنے کی دوائیں تیار کر لی ہیں۔ کرونا کی وبا آپ کے سامنے کس طرح پوری دنیا کو اس وبا نے اپنے پنجوں میں جکڑ کر مفلوج کر دیا ہے اگر اسکی وجہ کو تلاش کیا جائے تو نظر آئے گا یہ انتہائی جدید قسم کی بیماری ہے جس سے ملتی جلتی بیماریاں پہلے ضرور تھیں لیکن فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور وائرس کے ساتھ انسان کے کھیل نے سارا کھیل بگاڑ دیا یہی وجہ ہے کہ اس سے مقابلہ کے لئے صحیح اور دقیق طور پر مکمل علاج ابھی تک دریافت ہیں ہو سکا ہے اور میڈیکل رسرچ جاری ہے ، جب تک وائرس کے صحیح شناخت نہی ہو جاتی ہے اسکی دوا بننا بہت مشکل ہے ،چاہے یہ کرونا کی وبا ہو یا دوسرے امراض ہر جگہ دوا اسی وقت بن پاتی ہے جب مرض کی صحیح تشخیص ہو جائے اور پتہ چل جائے اس مرض کی تباہ کاریاں کیا ہیں اور بدن میں داخل ہونے کے راستے کیا کیا ہیں جتنا جتنا انسان مختلف جراثیم کے مہلک اثرات کو پہچانتا جائے گا اتنا ہی ان سے بچنے کا تدارک بھی کر تا جائے گا دشمن بھی اسی طرح ہے جب تک پہچانا نہیں جائے گا اس کی زد پر آ کر معاشرہ خاموشی کے ساتھ موت کی آغوش میں سوتا رہے گا لیکن جب اسے پہچان لیا جائے گا کہ ہمارا دشمن یہ ہے تو انسان اس سے مقابلہ کرے گا۔ کتنی ہی ایسی اقوام ہیں جو دشمن شناسی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں، یا دشمن سے غفلت کے نتیجہ میں اور بصیرت اور صحیح راستے کا علم نہ رکھنے کے باعث غیروں کے چنگل میں پھنس کر ان کا نوالہ بن گئیں۔ جس طرح ایک ماہر شطرنج باز کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مد مقابل حریف کی فکر کو پڑھ لیتا ہے اور ایسی چال چلتا ہے کہ طرف مقابل بھول ہی جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اسی طرح دشمن شناسی بھی ہے جو انسان اپنے دشمن اور اس کی چالوں سے واقف و با خبر ہوتا ہے وہ کبھی اس کی چال میں گرفتار نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود غفلت کا شکار نہ ہو اور بیدار ہو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں:
“ہمیں غفلت کا شکار نہ ہو کرہمیشہ بیدار اور ہوشیار رہنا ہوگا، ہمیں چاہیئے کہ دشمن کی سازشوں کو عملی جامہ پہننے سے پہلے بھانپ لیں اور انہیں پہچان کر ناکام بنا دیں صحیفہ نور ج7 ص48 لہذا ضروری ہے کہ انسان پر پل اور ہر لحظہ بیدار رہے اور اپنے دشمن سے ہوشیار رہے اگر وہ غفلت برتے گا تو ہلاکت اس کا مقدر ٹہرے گی جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: جو اپنے دشمن کے مقابلے میں خواب غفلت کا شکار ہوگا تو پھر دشمن کا فریب ہی اسے چونکائے گا۔ غررالحکم ج5 ص344۔ دشمن کو اگر پہچاننا ہے تو آنکھ بند کر کے پڑے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا حرکت میں آنا ہو گا مسلسل آگے بڑھنا ہوگا خود دشمن پر چوٹ کرنا ہوگی کہ وہ ہم پر چوٹ نہ کرے چنانچہ
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وَ اللَّهِ لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا وَ يَخْتِلَهَا رَاصِدُهَا وَ لَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ أَبَداً حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا .
خدا کی قسم میں اس بجو کے مانند نہیں ہو سکتا جس کا شکاری مسلسل کھٹکھٹاتا رہتا ہے اور وہ آنکھ بند کئے پڑا رہتا ہے ، یہاں تک کہ گھات لگانے والا اسے پکڑ لیتا ہے۔میں حق کی طرف آنے والوں کے ذریعہ انحراف کرنے والوں پر اوراطاعت کرنے والوں کے سہارے معصیت کا ر تشکیک کرنے والوں پر مسلسل ضرب لگاتا رہوں گا یہاں تک کہ میرا آخری دن آجائے۔ نھج البلاغہ خطبہ ۶ ترجمہ علامہ جوادی ۔ ص ۲۷ مولا نے یہاں پر بجو کی مثال دی ہے جسکی بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسا جانور یا پرندہ ہے جو بہت جلدی اپنے شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے بجو کو عربی میں ام عامر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کے شکار کا طریقہ یہ ہے کہ شکاری اس کے گرد گھیرا ڈال کر زمین کو تھپتھپاتا ہے اور وہ اندر سوراخ میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے۔پھر شکاری اعلان کرتا ہے کہ ام عامر نہیں ہے اور وہ اپنے کو سویا ہوا ظاہر کرنے کے لئے پیر پھیلا دیتا ہے اور شکاری پیر میں رسی باندھ کر کھینچ لیتا ہے ۔یہ انتہائی احمقانہ عمل ہوتا ہے جس کی بنا پر بجو کو حماقت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے آپ(ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ جہاد سے غافل ہو کر خانہ نشین ہو جانا اور شام کے لشکروں کو مدینہ کا راستہ بتا دینا ایک بجو کا عمل تو ہو سکتا ہے لیکن عقل کا اورباب مدینة العلم کا کردارنہیں ہوسکتا ہے۔ نھج البلاغہ خطبہ ۶ ترجمہ علامہ جوادی ۔ ص ۲۷ یقینا دشمن کو نہ پہچاننے کا نتیجہ قوم و ملت کی تباہی ہے لہذا ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے ظاہری دوست اور حقیقی دوست کی شناخت کی بھی ضرورت ہے ان دشمنوں کو پہچاننے کے لئے بصیرت فاطمی کی ضرورت ہے جو چولے بدل بدل کر آتے ہیں لیکن انکی دشمنی اپنی جگہ پر رہتی ہے ۔
تبصرہ کریں