دوا ساز مغربی اور صہیونی کمپنیوں کے بھارت میں نفوذ کے نتائج
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سی آر اوز کلینکس دستخط شدہ رضامندی فارموں کو اپنی سرگرمیوں کے قانونی اور جائز ہونے کا ثبوت قرار دیتے ہیں اور اس کو “شعوری رضامندی” کا نام دیتے ہیں لیکن اس بار بھی حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ کمپنیاں بھارت جیسے ممالک کی طرف رخ کرتی ہیں اور اس کے عوام کی غربت سے واقف ہیں جن کا نہ معالجاتی بیمہ ہے اور نہ ہی ان کے پاس علاج معالجے کے لئے کافی رقم ہے۔
بڑی یورپی دواساز کمپنیوں کے پاس نشوونما پاتی ہوئی مارکیٹیں ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنے کلینیکی تجربات بیرون ملک، سی آر او (CROs) کے ذریعے انجام دیتے ہیں۔ سی آر او درحقیقت کلینیکی تحقیقاتی تنظیم (Clinical Research Organization) ہے جو دواؤں کو براہ راست انسان پر آزما لیتی ہے۔ یہ 30 بلین ڈالر کا منافع بخش کاروبار ہے۔
سی آر او اس وقت 115 ممالک میں سرگرم عمل ہے جن میں سے ایک ہندوستان ہے؛ ایک ایسا ملک جہاں امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی فاصلہ بہت زیادہ ہے اور ایک اہاپج کردینے والی غربت نے یہاں کے زیادہ تر لوگوں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
سنہ 1984ع میں، بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں ایک صنعتی المیہ رونما ہؤا۔ یونین کاربائیڈ (Union Carbide) نامی امریکی کمپنی کے کیڑے مار دوا کے پلانٹ سے زہریلی گیسوں کا اخراج ہؤا اور ہزاروں ہندوستانی شہری مارے گئے۔ اس واقعے کے اثرات سے اب تک لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ دائمی بیماریاں، سرطان، پانی کی آلودگی، بچوں کی معذوری اور ناقص الخلقت بچوں کی پیدائش وغیرہ جیسے واقعات جو آج تک جاری ہیں، اسی حادثے کا نتیجہ ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کمپنی نے حادثے کے پسماندگان کے لئے ایک میموریل ہسپتال کی بنیاد رکھی لیکن یہ ہسپتال بھی در حقیقت سی آر او کے تجرباتی مرکز میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ آمر یہ کہ اس ہسپتال کے مریضوں کو کبھی بھی معلوم نہ ہوسکا کہ یہاں انہیں کن کن مسائل سے دوچار کیا جارہا ہے۔ یہ کمپنی اور اس قسم کی دوسری کمپنیوں اور CROs کا دعوی ہے کہ وہ اپنے مریضوں سے ایک فارم پر کرواتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر و بیشتر مریض ناخواندہ تھے اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کس قسم کے فارم پر دستخط کررہے ہیں۔
سی آر اوز کلینکس دستخط شدہ رضامندی فارموں کو اپنی سرگرمیوں کے قانونی اور جائز ہونے کا ثبوت قرار دیتے ہیں اور اس کو “شعوری رضامندی” کا نام دیتے ہیں لیکن اس بار بھی حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ کمپنیاں بھارت جیسے ممالک کی طرف رخ کرتی ہیں اور اس کے عوام کی غربت سے واقف ہیں جن کا نہ معالجاتی بیمہ ہے اور نہ ہی ان کے پاس علاج معالجے کے لئے کافی رقم ہے۔
کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ یہ لوگ اپنی بیماریوں کے علاج کے لئے ان تجربات کا حصہ بننے پر مجبور ہیں؛ پیریگو (Perrigo)، ایمجین (Amgen)، جی ایس کے (GlaxoSmithKline [GSK])، نوارٹس (Novartis Pharmaceuticals) اور فائزر (Pfizer) جیسی سرمایہ پرست کمپنیاں بھی غریب ممالک کے عوام کے کی افسوسناک صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔
بھارت میں سالانہ دس لاکھ افراد علاج و معالجے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اس ملک کی آدھی سے بھی زیادہ آبادی (ستر کروڑ انسانوں) کو سپیشلسٹ ڈاکٹر تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ سی آر او کے ایک کارکن کے مطابق، کلینیکی تجربات کا نشانہ بننے والے زیادہ تر لوگ غریب اور نادار لوگ ہیں اور 5٪ لوگ جامعات کے طلباء ہیں۔
بہرحال صورت حال یہی ہے، اور ہم جانتے ہیں اور بہت سارے لوگ شاید اب بھی نہیں جانتے کہ “غربت، ناداری اور محرومیت استعماری اور استحصالی قوتوں کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار ہے وہ اس اوزار کے ذریعے “بالکل قانونی اور منصفانہ” طریقے سے قوموں کا استحصال کرتی ہیں؛ اور یہی ایک ملک میں یورپی، امریکی اور صہیونی کمپنیوں کی نرم دراندازی اور غیرمحسوس مگر طویل المدت جارحیت کا تلخ میوہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں