“ذبیح” کی شناخت کی اہمیت
فاران:
1۔ اسلام اور یہودیت میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پیغمبر خاتم کی روح شریف اللہ کی پہلی مخلوق ہے اور روئے زمین پر سب سے بڑے پیغمبر پیغمبر خاتم ہی ہیں، جن کی رسالت عالمگیر ہے اور ان کا دین قیامت تک باقی ہے، اور وہ حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے بیٹے “ذبیح” کی نسل سے ہیں۔
2۔ گوکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے فرزند اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) ان سے 14 سال چھوٹے ہیں اور توریت میں بھی ذکر ہؤا ہے کہ خدا نے ابراہیم (علیہ السلام) سے فرمایا کہ جا کر اپنے “اکلوتے” بیٹے کو میری راہ میں قربان کرو، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، لیکن اس کے باوجود، اگر ہم یہودیوں اور موجودہ توریت کے کلام کو قبول کریں ـ یعنی مان لیں کہ ذبیح اسحاقؑ ہیں اور اس نبی آخر الزمان کو ان کے بیٹے یعقوبؑ اور قوم بنی اسرائیل سے ہے، تو یہودیوں کا خیال ہے کہ نبی موعود ـ جسے وہ ماشیح کہتے ہیں ـ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں اور وہ ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ [یہ سب جان کر بھی، کہ آخری نبی کون ہیں اور ان کا ظہور کب ہؤا ہے قرآن کی گواہی کے مطابق جہاں ارشاد ہوتا ہے: “وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے، اس رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اسی طرح پہچا نتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بلاشبہ ان میں ایک جماعت دانستہ طور پر حق کو چھپاتی ہے۔(بقرہ-146)]۔
3۔ لیکن اگر دین اسلام کے قول کو صادق سمجھیں ـ جو کہ حقیقتا صادق ہے ـ تو وہ ذبیح اسماعیلؑ ہیں، اور وہ نبی خاتم حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں جن کی تشریف آوری کی بشارت تمام انبیاء نے دیا ہے، چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو آپؐ پر ایمان لانا چاہئے تھا،
4۔ بے شک تمام تر مظالم اور جنگیں ـ جو روئے زمین پر نسلوں کے قتل اور حرث کی نابودی کا سبب بنتی آئی ہیں اور بن رہی ہیں ـ اسی اختلاف کی بنا پر ہیں اور اگر یہودی اور عیسائی حق کی پیروی کرتے اور محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر ایمان لاتے تو وہ خود بھی فلاح یافتہ ہوتے اور دنیا میں بھی صلح و رحمت کا بول بالا ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں