رسول اللہ(ص) کے خلاف یہود کے دہشت گردانہ حملے
فاران: یہودیوں کے لئے اپنی نافرمانی کی بنا پر حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے بعد ۴۰۰ برس تک کی سزا مقرر ہوئی؛ اور ۲۳۰ برس تک قبطیوں کے ظلم کا شکار ہوئے جس کے بعد انھوں نے چالیس دن تک اللہ کی درگاہ میں گڑگڑا کر التجا کی کہ وہ ان کے نجات دہندہ “حضرت موسی(ع) کو مبعوث فرمائے اور ان کی دعا قبول ہوئی اور کچھ سال بعد حضرت موسی(ع) کی ولادت ہوئی، ۱۹ سال کی عمر میں موسی(ع) کو مصر سے مدین جانا پڑا اور بعدازاں…
۔رسول اللہ(ص) کو مسلسل یہودی دہشت کی دہشت گردی کا سامنا
قبل از ولادت
اس میں شک نہيں ہے کہ یہودیوں نے حضرت ہاشم سے لے کے حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب تک کو نشانہ بنانے کے لئے جتنے بھی دہشت گردانہ حملے کئے ہیں ان کا اصل نشانہ رسول اللہ(ص) کی ذات بابرکات تھی اور ان سب حملوں کو آپ ہی پر حملہ تصور کیا جاتا ہے “قبل ولادت” حملوں کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔
بہرصورت، محترمہ “صدیقہ شاکری” نے اپنی کتاب “زنان اسوہ، حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا” میں کتاب “الانوار فی مولد النبی(ص)” اور “حیاۃ القلوب” کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ سے حاملہ ہوئیں تو حسد و کینہ اس قدر بڑھ گیا کہ بعض عورتیں حضرت آمنہ(س) کے قتل تک کے لئے تیار ہوئیں۔ ایک عورت بنام “زرقاء اليمامة” المعروف بہ “الزرقاء الداہیہ” ـ جو کہ کاہنہ تھی [اور متعدد منابع کے مطابق یمنی یہودیوں میں سے تھی] ـ اور حضرت عبداللہ(ع) کے سفر یمن کے دوران انہیں ہمبستری کی تجویز بھی دے چکی تھی لیکن عبداللہ کی پاکدامنی نے اسے ناکام چھوڑا تھا ـ کو معلوم ہوا کہ عبداللہ نے حضرت آمنہ(س) سے شادی کر رکھی ہے اور حضرت آمنہ آخری نبی(ص) کا گوہر حمل کررہی ہیں تو مکہ آپہنچی اور بنی ہاشم کی تعریف و تمجید کرکے اور انہیں آخری نبی کی عنقریب ولادت کی خوشخبری دے کر ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی اور بنی ہاشم کی خواتین کی ماشطہ یا بال سنوارنے والی عورت “تکنا” سے ملی اور سونے کے سکوں کا ایک تھیلا اسے نیز ایک زہریلا خنجر اس کے حوالے کرکے کہا کہ وہ جاکر حضرت آمنہ(س) کو خنجر گھونپ کر ماں کو بھی اور بچے کو بھی قتل کردے۔ مگر جب وہ آمنہ(س) کے پاس پہنچی تو شیطانی سازش پر عمل کرنے سے پہلے ہی اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھی اور خنجر اس کے ہاتھ سے گرگیا اور حضرت آمنہ(س) نے شور مچایا، اور اہل خاندان مدد کو پہنچے، تکنا نے پورا ماجرا کہہ سنایا، اہل خانہ زرقاء کی تلاش میں نکل پڑے مگر وہ بھاگ چکی تھی۔ (۱) تاریخ کی زیادہ تر کتب میں زرقاء کے لئے خارق العادہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں اور اس سے “عوج بن عنق” جیسی افسانے منسوب کئے گئے ہیں جو اسے مزید مشکوک بنا دیتے ہیں۔ غیر مستند رپورٹوں میں اس افسانوی عورت کو “یہودی” قرار دیا گیا ہے اور ہم نتیجہ لے سکتے ہیں کہ یہ یہودی عورت یا تو خود کاہنہ تھی یا پھر یہودی کاہنوں کی ہدایت پر مکہ پہنچی تھی لیکن اعجاز الہی سے ناکام و نامراد ہوکر مکہ سے بھاگ گئی۔
بعد از ولادت
جیسا کہ اس سلسلے کی تمہید میں بیان ہوا: مروی ہے کہ حضرت محمد(ص) کی ولادت کے بعد، ایک روز ایک یہودی عالم دارالندوہ میں حاضر ہوا اور حاضرین سے پوچھا کہ “کیا آج رات تمہارے ہاں کسی فرزند کی ولادت ہوئی ہے؟”، سب نے نفی میں جواب دیا۔ کہنے لگا کہ اگر نہیں ہوئی ہے تو فلسطین میں ہوئی ہوگی، ایک لڑکا جس کا نام “احمد” ہے اور یہود کی ہلاکت اسی کے ہاتھوں ہوگی۔ پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہؤا کہ عبداللہ بن عبدالمطلّب کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت ہوئی ہے۔ یہودی عالم کی درخواست پر اسے نومولود کے پاس لے جایا گیا۔ وہ طفل کو دیکھتے ہی بےہوش ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا: خدا کی قسم نبوت قیامت تک بنی اسرائیل سے چھین لی گئی۔ یہ وہی شخص ہے جو بنی اسرائیل کو نیست و نابود کرے گا۔ قریش نے یہ خبر سن کر خوشی کا اظہار کیا تو اس شخص نے کہا: خدا کی قسم! جو سلوک یہ بچہ تمہارے ساتھ کرے گا مشرق اور مغرب والے اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ (۲)
حلیمہ سعدیہ کے یہاں
رسول اللہ(ص) کے حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں قیام کے دوران سے تعلق رکھنے والی “شق صدر” کہلانے والی حدیث (۳) ـ بیان ہوا ہے کہ حلیمہ محمد(ص) کو مکہ لے کر آئیں اور آپ(ص) کو آپ کے دادا کے پاس لوٹایا اور کہا: میں آپ کے فرزند کی مزید نگہداشت نہیں کرسکتی؛ ان پر جنّات کا سایہ ہوگیا ہے! (۴) عَبدُالمُطَلِّب(ع) نے آپ(ص) کو اپنی تحویل میں لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث موضوعہ اور حقیقت کی پردہ پوشی کے لئے جعل کی گئی ہے۔ حضرت محمد(ص) کے مکہ واپس بھجوانے کا اصل سبب یہ تھا کہ یہودیوں نے آپ کا سراغ لگا لیا تھا اور آپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ دوسری روایات اس حقیقت کی تأئید کرتی ہیں (۵) کہ وہ علاقہ مزید پرامن نہ تھا اور حلیمہ مزید محمد(ص) کی پاسداری سے بےبس ہوچکی تھیں۔
بعدازاں رسول اللہ(ص) کی والدہ ماجدہ حضرت “آمنہ بنت وہب” بھی آپ کو لے کر اپنے شریک حیات عبداللہ بن عبدالمطلب کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ چلی گئیں، تو واپسی میں ابواء کے مقام پر ۳۰ سال کی عمر میں وفات پاگئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ (۶)
عیسائی راہب “بحیرا” کا انتباہ
رسول اللہ(ص) بارہ سال کے ہوئے تو ابوطالب(ع) کے ساتھ سفر شام پر نکلے؛ جب ابوطالب کا قافلہ تجارتی سفر پر شام جاتے ہوئے، بُصریٰ الشام (۷)، پہنچا تو عیسائی راہب “بحیرا” نے آنحضرت کی مدح و تعریف کی اور فضائل بیان کئے اور ابوطالب سے درخواست کی کہ آپ کو اپنے شہر میں واپس لے جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودیوں کے ہاتھ آپ تک پہنچ جائیں؛ کیونکہ ایسا کوئی بھی صاحب کتاب نہیں ہے جو نہ جانتا ہو کہ آپ کی ولادت ہوچکی ہے اور اگر وہ آپ کو دیکھ لیں تو یقیناً پہچان لیں گے۔ (۸)
بحیرا کا انتباہ درحقیقت رسول اللہ(ص) کو درپیش خطرے کی نشاندہی کررہا تھا۔ نبی آخرالزمان(ص) کے ساتھ یہود کی دشمنی اس قدر شدید تھی کہ بحیرا بھی ـ جو کہ عیسائی عالم تھا ـ جان گیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ابوطالب اس دشمنی سے بےخبر ہیں۔ ابوطالب نے محمد(ص) کو وہیں سے مکہ لوٹایا اور دلچسپ امر یہ کہ سات یہودی آپ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لئے بحیرا کے صومعے تک آگئے۔ (۹) بہرحال ابوطالب بعدازاں کبھی بھی کسی سفر پر نہیں گئے۔ (۱۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تالیف و تحقیق: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ صدیقہ شاکری، زنان اسوہ، حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا، ص ۴۷-۴۸، بحوالہ: ابو الحسن بن عبدالله البكري، الانوار في مولد النبي محمد صلى الله عليه واله، صص۱۷۳-۱۷۷؛ مجلسی، حیاة القلوب، ج۳، صص۱۶۱-۱۶۵۔
۲۔ کلینی، الکافی ج۸، ص ۳۰۰؛ امالی شیخ طوسی، ص ۱۴۵۔
۳۔ مسلم نیشابوری، صحیح المسلم، ج۱، ص۱۰۲؛ ابن حنبل، مسند احمد، ج۳، صص۱۲۱ و ۱۴۹ و ۲۸۸؛ حاکم نیسابوری، المستدرک، ج۲، ص۵۲۸۔
۴۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۱، ص ۱۶۵۔
۵۔ رجوع کریں وہی ماخذ، ج۱، ص۱۰۸؛ طبری، تاریخ الطبری، صص ۵۷۴-۵۷۵۔
۶۔ هاشم معروف الهاشمی، سیرة المصطفی (ترجمه فارسی)، ص۵۲۔
۷۔ بُصریٰ، اس زمانے میں عیسائیت کا مدرسۂ علمیہ اور ان دنوں کے مبلغین کا تربیتی مرکز تھا؛ نہایت سرسبز و شاداب علاقہ جہاں فطری طور پر قافلے پڑاؤ ڈالتے ہیں اور اس مدرسہ کے اساتذہ اور طلباء اور وہاں کے دوسرے لوگ ان کے ساتھ لین دین کرتے تھے۔
۸۔ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، صص۱۸۲-۱۸۶؛ مجلسی، بحار الانوار، صص ۴۰۸-۴۱۰؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۹۷۔
۹۔ طبری، تاریخ الطبری، ج۲، صص۳۳ و ۳۴۔
۱۰۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۱۵، ص۴۱۰۔
تبصرہ کریں