رسول اللہ (ص) کے بعد اہل بیت(ع) کو اتنے عظیم مصائب کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟

یہ معاشرہ جتنا آگے بڑھتا گیا حالات خراب تر ہوئے یہاں تک کہ 50 سال بعد، یہ معاشرہ دوران جاہلیت سے بھی بدتر ہؤا؛ یعنی انھوں نے اسلام کی ناقص اور ظاہری صورت کو اختیار کرلیا تھا لیکن اندر سے اس قدر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی تعلیمات سے دور ہوچکے تھے کہ سابقہ جاہلیت سے کئی گنا بڑی جاہلیت ان کے ہاں پلٹ آئی۔

فاران؛ گزشتہ سے پیوستہ؛

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد اسلامی معاشرہ ان حالات و کیفیات سے کیوں دوچار ہؤا، کہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو اتنےعظیم مصائب اور المیوں کا سامنا کرنا پڑا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے چند ہی عشرے بعد کس قسم کے اسباب معرض وجود میں آتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ اس قدر شدید انحراف، بدعت اور راہ اسلام سے دوری سے دوچار ہوجاتا ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے دوران رسالت جاہلیت میں ڈوبے ہوئے عربی معاشروں کو الہی اقدار تک پہنچانے کے لئے اپنی پوری صلاحیتوں سے استفادہ کیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آنحضرت پر ایمان لانے والوں ـ حتی کہ سابقون – کے درمیان ایسے افراد کی کمی نہیں تھی جو اقدار کی تبدیلی کے لئے مکمل طور پر آمادہ نہیں تھے۔ لہذا جاہلیت – بشمول قبائلی تعصب، اپنے خاندان اور قبیلے کے لئے زیادہ سے زیادہ فخر و اعزآز کے حصول کے جذبات، دوسرے خاندانوں اور قبائل کے ساتھ حسد اور مسابقت وغیرہ جیسے احساسات – کے آثار ان میں بدستور باقی تھے؛ چنانچہ 23 سالہ دور رسالت کے بعد جب امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت کا مرحلہ آن پہنچتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت سے اصحاب آپ کی ولایت کے اعلان کو برداشت نہ کریں اور اسے قبول نہ کریں۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ “… جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے … اللہ لوگوں [کے شر] سے آپ کی حفاظت کرے گا…”۔ (مائدہ 67) اب سوال یہ ہے کہ آپ کو کن لوگوں کی شرانگیزی سے خطرہ لاحق تھا؟ اس شرانگیزی کا خطرہ ان ہی مسلمانوں کے اندر کچھ افراد اور جماعتوں کی طرف سے تھا جو مسلمان تھے اور حج میں آنحضرت کے ساتھ تھے اور اب حج سے واپسی کے سفر پر تھے۔ چنانچہ جاہلیت اور انحراف کے آثار ان میں ہنوز باقی تھے۔ البتہ خداوند متعال نے ان آثار کے مٹانے اور اپنے پیغمبر کے اقدامات کو آگے بڑھانے اور یہ ضمانت فراہم کرنے کے لئے – کہ آپ کے وصال کے بعد بھی لوگوں کا دین صحیح راستے پر قائم و دائم رہے – اہل بیت علیہم السلام کی ولایت و امامت کی تدبیر اور تشریح فرمائی۔
معاشرے کے درمیان الہی اقدار کی پذیرائی کے لئے – اس انداز سے کہ لوگ اپنے قومی، جماعتی اورگروہی مفادات کو دینی مصلحتوں اور تعلیمات پر ترجیح نہ دیں اور مقد نہ رکھیں – کافی وقت درکار ہے۔ تبلیغ رسالت انجام پا چکی تھی لیکن کچھ لوگ کچھ عرصے تک اپنے بتوں کے تحفظ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر ایمان لائے تھے، یا آپ سے کہہ دیتے تھے کہ “ہم ایمان لاتے ہیں لیکن آپ اجازت دیں کہ ہم نماز نہ پڑھیں!”؛ بہت سے لوگوں کا رویہ یہ تھا۔ اللہ کے ہاں طے یہ تھا کہ امامت اور ولایت اس سلسلے کو عروج تک پہنچائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے دن ہی سقیفہ بنی ساعدہ کی خیانت کے ذریعے انحراف کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور ایسے لوگوں نے اقتدار سنبھالا جنہوں نے دین میں تحریف کا ارتکاب کیا اور دین میں بدعتوں کی بنیاد رکھی؛ کیوں؟ اس لئے کہ معاشرے نے ولایت کا دامن چھوڑ دیا اور بدعتوں اور انحرافات کو قبول کرلیا۔
یہ معاشرہ جتنا آگے بڑھتا گیا حالات خراب تر ہوئے یہاں تک کہ 50 سال بعد، یہ معاشرہ دوران جاہلیت سے بھی بدتر ہؤا؛ یعنی انھوں نے اسلام کی ناقص اور ظاہری صورت کو اختیار کرلیا تھا لیکن اندر سے اس قدر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی تعلیمات سے دور ہوچکے تھے کہ سابقہ جاہلیت سے کئی گنا بڑی جاہلیت ان کے ہاں پلٹ آئی؛ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ امام حسین علیہ السلام فرزند رسول ہیں، نہ صرف آپ کی مدد کو نہیں آتے بلکہ آپ کے خلاف تلوار لے کر میدان میں آتے ہیں اور آپ کو شہید کردیتے ہیں؛ اور اتنا عظیم اور المناک واقعہ رونما ہوتا ہے جس کا وقوع حتی کہ جاہلیت کے زمانے میں بھی ممکن نہيں تھا!