روایات اور سیرت امام حسین علیہ السلام کی روشنی میں عوامل عزت (۲)

اگر ان تمام عوامل کو یکجا طور پر بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے حسینیت ہی حقیقت میں زندگی  میں عزت و آبرو کا دوسرا نام ہے اگر راہ حسینیت پر ہم گامزن ہو گئے تو سربلندی ہمارے قدم چومے گی اس لئے کہ حسینیت  ایک ایسی شاہراہ عزت کا نام ہے جس پر چلنے والے خود بھی عزت دار ہوتے ہیں سماج اور معاشرہ کا سر بھی اونچا کرتے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

۵۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ :

اسباب عزت  میں ایک بڑا سبب جسکی بنا پر انسان ہمیشہ عزت کے ساتھ جیتا ہے خدا پر بھروسہ اور توکل ہے ، امام محمد باقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

«الغنی والعز یجولان فی قلب المؤمن فاذا وصلا الی مکان فیه التوکل اقطناه[1]; بے نیازی و عزت مومن کے دل میں جولانی کرتے رہتے ہیں اور جب وہ ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جس میں توکل ہو تو اس پر تصرف کر لیتے ہیں ۔

شاید امام محمد باقر علیہ السلام کی یہ حدیث یہ بتانا چاہتی ہو ، کہ بےنیازی و عزت دو ایسی چیزیں ہیں جو اس وقت تک انسان کے وجود میں نہیں سماتیں جب تک اس کے دل میں توکل نہ ہو  جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے بھی ایک دوسرے انداز میں اسی بات کو یوں فرمایا ہے :

«ان العز والغنی خرجا یجولان، فلقیا التوکل فاستوطنا[2]  بیشک عزت و بے نیازی  نکل کر نکل گئیں اور حرکت کرنے لگیں پس انکی ملاقات توکل سے ہوئی وہیں انہوں نے اپنا وطن بنا لیا ۔ شاید مفہوم حدیث یہ ہے کہ عزت و بے نیازی اس وقت تک نہیں آتیں جب تک توکل نہ ہو اور  ایک عزت مند و بے نیاز انسان وہی ہوتا ہے جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہو  ظاہر ہے جب وہ خدا پر بھروسہ کرے گا تو این و آن کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرے گا جسکی بنا پر اسے کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہونا پڑے گا    ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ پر بھروسہ و توکل کیسا ہونا چاہیے ؟

توکل یہ ہے جس  کے سلسلہ سے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں : من اتکل علی حسن اختیار الله تعالی له لم یتمن غیر مااختاره عزوجل له[3]

جو اللہ کے حسن اختیار ( انتخاب ) پر توکل کرے وہ ان چیزوں کی تمنا نہیں کرتا جسے اللہ  نے اس کے لئے  نہیں چنا ہے ۔

توکل  یہ ہے کہ انسان سب کچھ خدا پر چھوڑ دے   بندگی کرے اور بس ، اپنی کوشش کرے لیکن یہ نہ سوچے کہ میں کر رہا ہوں۔ توفیقات کو بھی اپنے مالک کی عنایت جانے  اسی پر بھروسہ کرے اور اسی کی طرف بازگشت کو اپنے دل سے قبول کرے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے وصیت نامے میں بیان فرماتے ہیں : وهذه وصیتی الیک یا اخی وما توفیقی الا بالله علیه توکلت والیه انیب …[4]اور یہ میری وصیت ہے تمہارے لئے ائے میرے بھائی کہ کوئی توفیق حاصل نہیں ہوتی مگر خدا کی جانب سے ، اسی پر بھروسہ ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں  جب عاشور کی صبح ہوئی تو میرے  بابا نے  زیر آسمان اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے کہا:

«اللهم انت ثقتی فی کل کرب وانت رجائی فی کل شدة وانت لی فی کل امر نزل بی ثقة وعدة . کم من هم یضعف فیه الفؤاد ویقل فیه الحیلة ویخذل فیه الصدیق ویشمت فیه العدو، انزلته بک وشکوته الیک رغبة منی الیک عمن سواک; ففرجته عنی وکشفته وکفیته فانت ولی کل نعمة وصاحب کل حسنة ومنتهی کل رغبة [5] ۔ میرے پروردگار ہر کرب میں توہی میری تکیہ گاہ ہے ، ہر مصیبت میں تو ہی میری امید ہے  مجھ پر نازل ہونے والے ہر امر اور حادثہ میں تو ہی پناہ گاہ ہے ، کتنے ایسے غم ہیں جہاں دل ناتواں ہو جاتا ہے  اور چارہ کار گم ہو جاتا ہے ، دوست اس میں خوار و رسوا ہو جاتے ہیں ۔میں ان سبکو تیرے حضور لیکر آیا ہوں  ، میری شکایت تیرے حضور ہے  اور یہ شکوہ شکایت اس لئے ہے کہ  تجھ سے محبت ہے اور دل تجھ سے جڑا ہوا ہے  دوسروں سے نہیں ، اور تونے ساری مشکلات  کو حل کیا اور مرے ہر امر کی کفایت کا سبب بنا ، تو تمام نعمتوں کا مالک ، تمام خوبیوں کا مالک، اور تمام آرزوں کا منتہا ہے  ہر آرزو تجھ پر جا کر ختم ہوتی ہے ۔

امام حسین علیہ السلام کا یہ انداز گفتگو بتاتا ہے کہ آپ توکل کے کس مقام پر تھے اور جب انسان کا بھروسہ خدا پر حسینی ہو تو پھر عزت بھی اسے حسینی ملتی ہے ، اب ہم پر ہے کہ کس طرح خدا پر بھروسے کو اپنے پورے وجود میں نکھاریں تاکہ خدا ہمیں عزت و وقار عطا کرے کہ عزت اسی دل کو تلاش کرتی ہے جہاں اللہ کی ذات پر بھروسہ ہو ۔

یہ عزت کے چند  وہ اسباب و عوال تھے جن پر اگر توجہ دی جائے تو انسان ایک باعزت و آبرو مندانہ زندگی کا حامل ہو سکتا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ باتیں محض باتیں ہوں بلکہ ان میں ہر ایک عامل  ایسا ہے  جسے اگر مصداق کے طور پر تلاش کرنا ہو تو کربلا میں مل جائے گا ، اگر ان تمام عوامل کو یکجا طور پر بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے حسینیت ہی حقیقت میں زندگی  میں عزت و آبرو کا دوسرا نام ہے اگر راہ حسینیت پر ہم گامزن ہو گئے تو سربلندی ہمارے قدم چومے گی اس لئے کہ حسینیت  ایک ایسی شاہراہ عزت کا نام ہے جس پر چلنے والے خود بھی عزت دار ہوتے ہیں سماج اور معاشرہ کا سر بھی اونچا کرتے ہیں  یوں تو   احادیث میں  صداقت و سچائی [6]، حلم و بردباری[7] ، انصاف پسندی[8] ،دنیا سے چشم پوشی [9]، حرص و طمع سے دوری[10] ، قناعت و عفو [11]   اور انکے علاوہ اور بھی عوامل ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم ان سے صرف نظر کرتے ہوئے چند ایک ان عوامل کو ذکر کیا جو اہم تھے اور کربلا میں  بطور خاص ان سب کو  یکجا طور  پر  ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ شک نہیں کہ اگر ہم شعور حسینیت پیدا کر لیں  اور کربلائی فکر کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتار لیں تو یزیدیت چاہے کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ہمیں کبھی ذلیل و رسوا نہیں کر سکتی ہم ہمیشہ حسینیت کے سایہ میں سر بلند و باعزت رہیں گے اور ہمارے سامنے آنے والی یزیدیت چاہے جس لباس میں ہو ذلیل و رسوا رہے گی ۔

حوالہ جات

[1]  ۔ میزان الحکمہ ، ج 5، ص 1959، حدیث 12862

[2]  ۔ میرزا حسین نوری، مستدرک الوسائل، ج 11، ص 218، حدیث 12793 .

[3]  ۔ قاضی نور الله شوشتری، احقاق الحق، ج 11، ص 591 .

[4] ۔ ملحقات احقاق الحق، ج 11، ص 602

[5]  ۔ الارشاد مفید، ص 253; نفس المهموم، ص 144; مقتل مقرم، ص 253

[6] ۔ الصدق عز والکذب عجز; تحف العقول، ص 265 .الصدق عز والجهل ذل

[7]  ۔ امام علیؑ کاقول ہے کہ(لاعزّ کالحلم)’’کوئی بھی عزت حلم اوربردباری کی طرح نہیں ہے۔‘‘ نہج البلاغہ، کلمات قصار،

[8]  ۔ «الا انه من ینصف الناس من نفسه لم یزده الله الا عزه;محمد بن یعقوب کلینی، اصول کافی (دارالکتب الاسلامیة)، ج 2، ص 144

[9] ۔ من سلا عن مواهب الدنیا عز;

غررالحکم، (همان)، 9148

[10]  ۔اطلب بقاء العز باماتة الطمع ،محمدی ری شهری، میزان الحکمه، ج 6، ص 293، حدیث 12581

[11] ۔ عليكم بالعفو، فان العفو لا يزيد العبد الا عزا، فتعافوا يعزكم الله (44- الكافى ، ج 2، ص 108.، ثلاث لا یزید الله بهن المرء المسلم الا عزا: الصفح عمن ظلمه واعطاء من حرمه و الصلة لمن قطعه، «میزان الحکمة، ج 6، ص 293، حدیث 12538 .

 

پایان