زیارت عاشورا، تزویری دستاویز اور دشمن شناسی کی غیر معمولی اہمیت پر تاکید
فاران؛ زیارت عاشورا حدیث قدسی ہے (۱) اور امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے، جو کلیدی الفاظ اور اصطلاحات پر مشتمل ہے، منجملہ سلام، لعن، حرب اور سلم؛ کچھ یوں کہ لعن اور اس کے ہم معنی الفاظ کی تعداد ۶۰ اور سلام اور اس کے مترادف الفاظ کی تعداد ۳۰ ہے، لعن اور مترادفات کی تعداد سلام اور مترادفات کے دو گنا ہے؛ جس سے خداوند متعال کی طرف سے دشمن شناسی کی ضرورت پر تاکید کا اظہار ہوتا ہے۔
زیارت عاشورا کے پہلے فقرے سلام اور امام حسین علیہ السلام کی مختلف نسبتوں اور عظمت و مظلومیت کے مختلف پہلؤوں پر مشتمل ہیں:
اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا اَبا عَبْدِ اللَّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ رَسُولِ اللَّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا خِيَرَةَ اللَّهِ وَابْنَ خِيَرَتِهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ اَميرِ الْمُؤْمِنينَ، وَابْنَ سَيِّدِ الْوَصِيّينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ فاطِمَةَ سَيِّدَةِ نِسآءِ الْعالَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا ثارَ اللَّهِ وَابْنَ ثارِهِ، وَالْوِتْرَ الْمَوْتُورَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ وَعَلَى الْأَرْواحِ الَّتى حَلَّتْ بِفِنآئِكَ، عَلَيْكُمْ مِنّى جَميعاً سَلامُ اللَّهِ اَبَداً ما بَقيتُ وَبَقِىَ اللَّيْلُ وَالنَّهارُ،
دوسرے فقرے میں عاشورا کے دن کے مصائب اور واقعۂ عاشورا کی عظمت بیان کی جاتی ہے:
يا اَبا عَبْدِ اللَّهِ، لَقَدْ عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ وَجَلَّتْ وَعَظُمَتِ الْمُصيبَةُ بِكَ عَلَيْنا، وَعَلى جَميعِ اَهْلِ الْإِسْلامِ وَجَلَّتْ وَعَظُمَتْ مُصيبَتُكَ فِى السَّمواتِ، عَلى جَميعِ اَهْلِ السَّمواتِ،
تیسرا فقرہ لعن یعنی دشمن شناسی پر مشتمل ہے:
فَلَعَنَ اللَّهُ اُمَّةً اَسَّسَتْ اَساسَ الظُّلْمِ وَالْجَوْرِ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ، وَلَعَنَ اللَّهُ اُمَّةً دَفَعَتْكُمْ عَنْ مَقامِكُمْ، وَاَزالَتْكُمْ عَنْ مَراتِبِكُمُ الَّتى رَتَّبَكُمُ اللَّهُ فيها، وَلَعَنَ اللَّهُ اُمَّةً قَتَلَتْكُمْ۔۔۔
اور چوتھا فقرہ باقی قاتلوں اور قتل پر خوشی منانے والوں اور اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے والوں پر لعن سے شروع ہوتا ہے: وَلَعَنَ اللَّهُ آلَ زِيادٍ وَآلَ مَرْوانَ، وَلَعَنَ اللَّهُ بَنى اُمَيَّةَ قاطِبَةً، وَلَعَنَ اللَّهُ ابْنَ مَرْجانَةَ ۔۔۔
لہذا کہا جاسکتا ہے کہ عاشورا عالم تشیع کی تزویری (Strategic) دستاویز ہے۔
زیارت عاشورا کے لعن کے فقرے میں شمر لعین چھٹے رتبے پر قرار پایا ہے۔
قرآن کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے دشمنوں کو تین زمروں میں قرار دیا ہے:
۱۔ مشرکین کی جماعت:
“تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ؛ ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور وہ ہلاک ہوا۔ (۲)
۲۔ منافقین کی جماعت:
سورہ منافقون کی زیادہ تر آیات نیز دیگر سورتوں میں متعدد آیات میں منافقین کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں؛ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ منافقین ظاہری طور پر مسلمان اور باطنی طور پر کافر ہیں۔
۳۔ یہودی اور نصاریٰ:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ؛ اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا”۔ (۳)
*قرآن کریم کی ایک ہزار آیات کریمہ یہود کے بارے میں
قرآن کریم کی آیات کی تعداد ۶۲۳۶ ہے جن میں سے ۱۰۰۰ سے زائد آیات کا تعلق یہود اور نصاری سے ہے؛ (۴) بہ الفاظ دیگر قرآن کو اگر چھ حصوں میں فرض کیا جائے تو چھٹا حصہ یہود اور نصاریٰ کے بارے میں ہے۔ خداوند متعال نے یہود و نصاریٰ کو کفر کے زمرے میں شمار کیا ہے اور قرآن کے معنوی ربط کے پیش نظر مشرکین کو بھی کافر گردانا ہے۔ (۵)
ادھر سورہ حمد کی آخری آیت میں “المَغضُوبِ” سے مراد یہود (۶) اور “الضَّالِّينَ” سے مراد نصاریٰ (۷) ہیں؛ اور پھر بصائر الدرجات میں منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو مسموم کیا۔ (۸) اور ایک روایت میں امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا: “میں اپنے نانا رسول اللہ(ص) کی طرح مارا جاؤں گا”۔ (۹)
خداوند متعال کا ارشاد ہے: “لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ؛ یقیناً آپ یہودیوں اور مشرکین کو ایمان والوں کا شدید ترین دشمن پائیں گے”۔ (۱۰) شیخ محمد بن حسن طوسی(رح) نے اس آیت کے ذیل میں یہود کی اسلام دشمنی کی شدت کے دلائل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “وہ جنگوں میں مشرکین کی مدد کرتے تھے”؛ اور ہم سب جانتے ہیں کہ کم از کم جنگ احد اور جنگ خندق میں یہودیوں نے مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے خلاف جنگ پر اکسایا۔ یہاں تک کہ وہ بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوئے تا کہ مشرکین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکیں۔ (۱۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطاب: حجتالاسلام محمدعلی منصوری دامغانی / تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ زیارت عاشورہ حدیث قدسی ہے اس بارے میں علمائے حدیث کے نزدیک اختلاف ہے لیکن شیخ طوسی نے اپنی کتاب مصباح المجتھد میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل کر کے اس کے حدیث قدسی ہونے کو ثابت کیا ہے۔(شیخ طوسی محمد بن حسن، مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، مؤسسه الفقه الشیعه، ۱۴۱۱ ق، ص۷۸۱-۷۸۲)
۱۔ سورہ لہب، آیت ۱۔
۲۔ سورہ مائدہ، آیت ۵۱۔
۳۔ بعض دیگر محققین کے بقول قرآن کریم کی ۲۰۰۰ سے بھی زائد آیات کریمہ یہود شناسی اور ان کی مختلف النوع اور مکرر در مکرر عہدشکنیوں کے بارے میں ہیں؛ گوکہ موجودہ تحریف شدہ تورات میں بھی یہود کی عہد شکنی کے متعدد واقعات نقل ہوئے ہیں۔ (مترجم)
۴۔ “لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ؛ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتے تھے جب تک ان کی طرف ایک روشن رہنمائی آ نہ جائے”۔ (سورہ بینہ، آیت ۱) “إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ؛ یقینا اہل کتاب اور مشرکین جو کفر میں مبتلا ہیں دوزخ کی آگ میں ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں”۔ (سورہ بینہ، آیت ۶)
۵۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: غیر المغضوب علیہم میں “مغضوب” یہود ہیں جن کے بارے میں خداوند متعال [سورہ مائدہ کی آیت ۶۰ میں] ارشاد فرمایا ہے: “قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللّهِ مَن لَّعَنَهُ اللّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ؛ کہیے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے زیادہ انجام میں اللہ کے یہاں بدتر کون ہے؟ وہ جس پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر وہ غضب ناک ہوا”؛ اور پھر امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: ہر ۔ (بحارالانوار، ج۲۵، ص۲۷۴، بحوالہ تفسیر تسنیم، عبداللہ جوادی آملی)
۶۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: “ضالین، نصاری ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے [سورہ مائدہ کی آیت ۷۷ میں] فرمایا: “قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُواْ أَهْوَاء قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّواْ كَثِيراً وَضَلُّواْ عَن سَوَاء السَّبِيلِ؛ کہیے کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو سے کام نہ لو اور ان لوگوں کے دل بخواہ خیالات کی پیروی نہ کرو جو پہلے گمراہ ہو چکے اور انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے”۔ (وہی مأخذ، بحوالہ تفسیر تسنیم، عبداللہ جوادی آملی)
۷۔ بصائر الدرجات، محمد بن حسن صفار، ص۵۲۳۔
۸۔ مناقب آل ابي طالب(ع)، (مطبوعه نجف، ۱۳۷۶ ه ۱۹۵۶ع) ج۳، ص۱۷۵٫
۹۔ سورہ مائدہ، آیت ۸۲۔
۱۰۔ یہودیوں کا ایک سرغنہ “کعب بن اشرف” رسول اللہ(ص) کے ساتھ اپنا عہد توڑ کر، جنگ احد کے بعد، مشرکین کے ساتھ عہد و پیمان استوار کرنے کی غرض سے ستر یہودیوں کی سرکردگی میں مکہ پہنچا۔ مشرکین نے ان کو اپنے گھروں میں ضیافت دی۔ مکہ کے ایک قریشی مشرک نے کعب سے کہا: اگر تم معاہدے کی توقع رکھتے ہو تو تم لوگ ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ۔ یہودیوں نے بتوں کے آگے سجدہ کیا اور بعدازاں فریقین نے معاہدے پر دستخط کئے؛ اور تو اور کعب بن اشرف نے مشرکین سے کہا: خدا کی قسم! تمہارا طریقہ دین محمد(ص) سے بہتر ہے۔ جس کے بعد سورہ نساء کی آیت ۵۱ نازل ہوئی اور یہودیوں کی مزید ایک صفت کو بیان کیا؛ ارشاد ہوا: “أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيباً مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ سَبِيلاً؛ کیا تم نے نہیں دیکھا انہیں جن کو کتاب میں سے کچھ حصہ دیا گیا کہ وہ جبت و طاغوت پر ایمان لاتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں وہ اہل ایمان سے زیادہ ٹھیک راستے پر ہیں”۔ جیسا کہ انھوں نے حضرت موسی(ع) کے زمانے میں بھی خدا کے ساتھ کئے عہد کی خلاف ورزی کی، انجانے معبودوں کے آگے سجدہ کیا اور اللہ کی لعنت کے مستحق ٹہرے اور انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ (عہد قدیم، سفر استثناء، باب ۲۹، ۲۴ تا ۲۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں