سید حسن نصراللہ کا خطاب

آج سید حسن نصراللہ نے اسراٸیل کے خلاف کسی مکمل جنگ کا اعلان نہ کرکے اپنی دانش اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں جبکہ دنیا کے تقریباً تمام اسلامی ممالک اہل فلسطین سے مکمل کنارہ کشی کیے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر اسراٸیل سے خفیہ اور اعلانیہ تعلقات رکھتے ہیں اور اسراٸیل سے زیادہ ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں

فاران: دانش و بینش ایک حقیقی رہنماء کا خاصہ ہوتی ہے۔ اس کی نظر گردش زمانہ پر ہوتی ہے۔ ایک طرف جہاں لشکر کا سپہ سالار اپنے دشمن پر برق ناگہاں بن کر گرتا ہے، وہاں دوسری طرف وہ اپنے سینے کی دیوار سے اپنے لشکر کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ سوچ سمجھ کر ایک لاٸحہ عمل کے تحت اپنا ہر قدم اٹھاتا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کی خواہش تھی کہ سید مقاومت فوری طور پر اپنے لاٶ لشکر سمیت اسراٸیل پر چڑھ دوڑنے کا اعلان کر دیں۔ لیکن اپنے خطاب میں انہوں نے اپنی جس اسٹریٹیجی کا اعلان کیا ہے، اس کے بین السطور میں درحقیقت غاصب صیہونی حکومت کے مکمل خاتمے کی نوید ہے۔

آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں عین اس وقت جب ایران اس پوزیشن میں آگیا تھا کہ اس کی افواج عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ کرسکتی تھیں، امام خمینی نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس جنگ کو بند کرنے کا اعلان کر دیا اور اس جنگ بندی کو زہر کا پیالا نوش کرنے سے تشبیہ دی۔ محاذ جنگ پر ”شیر مردان خدا کرب و بلا در انتظار است“ کا رزمیہ نوحہ پڑھنے والے ایرانی مجاہدین کو جب اس جنگ بندی کی خبر ملی تو ان میں سے کئی شدت غم سے بے ہوش ہوگئے۔ لیکن وقت نے دیکھا کہ اس جنگ بندی کے بعد ایران کے دشمن باہم دست و گریباں ہوگئے اور صدام حسین نے جس ”شط العرب“ کو بہانہ بنا کر ایران پر جنگ مسلط کی تھی، اس شط العرب کو خود ایران کا حصہ تسلیم کر لیا۔

آج سید حسن نصراللہ نے اسراٸیل کے خلاف کسی مکمل جنگ کا اعلان نہ کرکے اپنی دانش اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں جبکہ دنیا کے تقریباً تمام اسلامی ممالک اہل فلسطین سے مکمل کنارہ کشی کیے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر اسراٸیل سے خفیہ اور اعلانیہ تعلقات رکھتے ہیں اور اسراٸیل سے زیادہ ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں اور امریکہ سے وعدہ کرچکے ہیں کہ وہ جب بھی ایران پر حملہ کرے گا، وہ اسے اپنی فضاٸی حدود فراہم کریں گے، ایران کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ اسراٸیل اور امریکہ کے خلاف مکمل جنگ میں داخل ہو جاتا۔ اس کے باوجود ایران ہی وہ تنہاء اسلامی ملک ہے، جس نے فلسطینی جہادی گروہوں کی دامے، درہمے، سخنے، قدمے مالی اور عسکری مدد کی ہے اور کر رہا ہے اور اس کے زیر اثر عسکری گروہ دنیا میں جہاں کہیں بھی سرگرم عمل ہیں، امریکی اور اسراٸیلی مفادات پر حملے کر رہے ہیں۔

ایران اس وقت اسراٸیل سے حالت جنگ میں ہے۔ اس جنگ میں وہ شہید قاسم سلیمانی جیسی نابغہء روزگار شخصیات کی قربانی دے چکا ہے۔ اسراٸیل کے وجود کو صفحہء ہستی سے مٹانا اس کے نزدیک امام خمینی کی آرزو کی تکمیل ہے۔ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے اسلامی جمہوری ایران اسراٸیل کے خلاف اپنی بناٸی ہوٸی حکمت عملی کے تحت قدم بقدم آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا اسے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی کے دھکے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ القدس کی آزادی آج فلسطینیوں سے زیادہ اسلامی جمہوری ایران اور حزب اللہ کا مسئلہ ہے، کیونکہ یہ جنگ اب محض کسی علاقے کی آزادی تک محدود نہیں رہی بلکہ اب یہ اللہ کی راہ میں ایک جہاد بن گٸی ہے، جس کی سرپرستی ولایت فقیہ کر رہی ہے۔

آج اگر کوٸی حکومت دو ریاستی فارمولے کی بجائے ”ماٸنس اسراٸیل“ کے فارمولے کی بات کرتی ہے تو وہ صرف ایران ہے۔ اسلامی جمہوری ایران کی قیادت اسراٸیل کے خاتمے کے لیے اپنا جو منصوبہ اور منشور رکھتی ہے، وہ اس پر مکمل عمل درآمد کے لیے کسی مناسب وقت کے انتظار میں ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد بعض قوتوں کا ایران پر دباٶ تھا کہ وہ اسراٸیل اور امریکہ کے خلاف مکمل جنگ کا اعلان کر دے، لیکن اس وقت ایران کی بابصیرت قیادت نے اپنے ”انتقام سخت“ کو کسی خاص ”وقت معلوم“ تک کے لیے موقوف کر دیا تھا۔ آج حزب اللہ بھی بخوبی جانتی ہے کہ بعض طاقتیں اسے کسی ٹریب میں لا کر اور اسے اکیلا کرکے اس کا خاتمہ چاہتی ہیں۔

2006ء کی جنگ میں بھی یہی ہوا تھا۔ جب غزہ پر مسلط جنگ کا تمام بوجھ حزب اللہ نے اپنے سر لے لیا تو اکثر مسلم ممالک اس کے قدموں کے نیچے سے بساط کھچنے کے منتظر تھے۔ حتیٰ کہ درباری علماء سے فتوے دلوائے گئے کہ حزب اللہ کی حمایت حرام ہے، کیونکہ وہ ایک شیعہ جماعت ہے۔ آج حماس نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کے پیچھے ایران اور ایران کی قدس فورس کا مکمل تعاون ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی تھیں۔ سید حسن نصراللہ کی میز پر کسی بڑی جنگ کا آپشن ہر وقت موجود ہے۔ حزب اللہ اب بھی اسراٸیل سے حالت جنگ میں ہے۔ اس کے کئی جوان جام شہادت نوش کرچکے، لیکن آج کا وقت عسکری کامیابیوں کو سمیٹنے اور آٸندہ کسی بڑی جنگ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کا وقت ہے۔ نصر من اللہ و فتح قریب۔