سید کا اسٹریٹیجک خطاب
فاران: حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے خطے کو دہشت گرد گروہوں کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے ان گروہوں کی تشکیل کا ذمہ دار امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس اداروں کو قرار دیا ہے۔ جمعرات کی شب ایک تقریب میں لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے گذشتہ دو دہائیوں میں خطے کے ممالک کے لیے دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کا مقصد اسلامی اقدار کی توہین کرنا تھا۔ انہوں نے جہاد، شہادت اور مزاحمت کو بدنام کرنے کے لئے پہلے انتہاء پسند گروہوں کی نشاندہی کی اور بعد میں انہیں خطے میں دہشت گرد نیٹ ورک قائم کرنے کے لیے تیار کیا۔
لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے تاکید کرتے ہوئے کہا: “2000ء کے بعد سے مغرب میں بہت سی ثقافتی اور میڈیا کوششیں شروع ہوئی ہیں، تاکہ خطے میں مزاحمت کی اقدار پر حملہ کیا جاسکے، جس کی واضح مثال جہاد النکاح کی اصطلاح کا استعمال تھا۔” انہوں نے خطے میں مغرب کے دہشت گرد گروہوں کے قیام کا مقصد لوگوں کو مزاحمت سے دور کرنا قرار دیا۔ لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے نقطہ نظر کے مطابق مغربی ممالک اور صیہونی حکومت نے خطے کے مسلم ممالک بالخصوص مزاحمت کے بلاک پر حملہ کرنے کے لیے داعش اور جھبۃ النصرہ جیسے انتہاء پسند اور دہشت گرد گروہ قائم کیے، لیکن خطے کے عوام اور ذمہ داران کی چوکسی اور ہوشیاری سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔
خطے میں دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں استکبار اور صیہونیت کے کردار کے بارے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے جس بات کا انکشاف کیا ہے، اس کا مغربی اور صیہونی شخصیات اور حکام نے بارہا اعتراف کیا ہے۔ 2019ء میں، اسرائیلی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف، گاڈی آئزن کوٹ نے اعتراف کیا تھا کہ تل ابیب نے شام میں دہشت گردوں کو “اپنے دفاع کے لیے” مہلک ہتھیاروں سے لیس کیا تھا۔ 2016ء کی انتخابی مہم میں “داعش دہشت گرد گروہ” کے قیام میں امریکہ کی مدد کے بارے میں “ڈونلڈ ٹرمپ” کے بیانات، اس گروہ اور اسی طرح کے گروہوں کو مضبوط کرنے میں صیہونی حکومت کی بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے مزاحمت کے بلاک کا مقابلہ کرنے کے لیے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور عراق و شام اور پھر افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کو وسعت دینے کی مسلسل کوششیں کیں۔ امریکہ نے مغرب کے رہنماء کی حیثیت سے اپنے مغربی اور صہیونی شراکت داروں کے ساتھ مل کر داعش سمیت تکفیری دہشت گردوں کی وسیع حمایت کی اور دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ماضی میں القاعدہ اور حال میں داعش جیسے دہشت گرد گروہ بڑی طاقتوں اور مغربی حکومتوں کی مالی، انٹیلی جنس اور لاجسٹک مدد کے بغیر طویل مدت تک تنہا کام نہیں کرسکتے۔
مغربی ایشیاء کے خطے میں دہشت گرد عناصر کی فوجی تربیت، مالی اور انٹیلی جنس مدد اور انہیں ہتھیار اور مواصلاتی آلات بھیجنا نیز دہشت گرد گروہوں کی تشکیل اور اس کی حمایت، امریکہ کے کردار کی ایک معمولی جھلک ہے۔ بلا شک و شبہ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ متاثرین میں سے ایک ہونے کے ناطے دہشت گرد گروہوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے خطے اور دنیا کے ممالک کے ساتھ تعاون کے لیے اپنی آمادگی کا بارہا اعلان کرچکا ہے اور اس نے بھاری مالی اخراجات کے ساتھ اپنے پیاروں کی قربانیاں بھی پیش کی ہیں، جن مین سے ایک پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر شہید جنرل قاسم سلیمانی بھی ہیں۔
ایران، افغانستان، شام، پاکستان، ترکی اور عراق سمیت خطے کے ممالک کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ ملکر خطے میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایران نے انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون اور مختلف سکیورٹی اداروں کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا ہے اور حالیہ برسوں میں خطے کے مختلف اعلیٰ حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں اور دوروں کو بھی اس تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔
تبصرہ کریں