سینما مغرب کی نگاہ میں / اہداف و مقاصد

ہالی ووڈ کا ایک کردار سپنے دکھانے سے عبارت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہالی ووڈ کے سپنے دکھانے کا مقصد کیا ہے؟ جس چیز نے امریکہ اور دنیا کی ثقافت کو بدل دیا، وہ یہی ہالی ووڈ کا خواب دکھانے کا رجحان ہے۔

فاران؛ موعود تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل شفیعی سروستانی نے ستمبر سنہ 2012ء میں موعود انسٹی ٹیوٹ کے پینسٹھویں اجلاس سے خطاب کرکے سینما کے بارے میں مغرب پرستانہ آراء کا جائزہ لیا تھا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
سینما اور ٹیلی ویژن ہمارے ممالک میں ابتدائی طور پر پرانی یادوں کی علامت تھا۔ یعنی سینما کو یادیں زندہ کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ فلم بینی تفریح تھی، چنانچہ حاضرین کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ سینما کے بارے میں دوسرے ممالک کے عوام کا نظریہ بھی یہی ہے؟
مشرقی ممالک میں بھی سینما کے بارے میں یہی تصور رائج تھا اور فلم بین عام طور پر تفریح کی غرض سے سینما ہالوں میں حاضر ہوتے تھے۔ تفریح کا تصور سینما کے تصور کا لازمہ تھا۔ اور اصولی طور پر سینما کو ہالی ووڈ کا مترادف سمجھا جاتا ہے حالانکہ سینما ہالی ووڈ میں پروان چڑھا جبکہ سب سے پہلے خاموش فلم کا تجربہ نیویارک میں تھامس ایڈیسن (Thomas Edison) نے 1889ء میں کیا؛ تاہم بہت جلد سینما نیویارک اور ایڈیسن کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ایک گروپ نے اسے کیلی فورنیا کے شہر لاس میں اینجلس منتقل کر دیا۔
یہ علاقہ اس سے پہلے امریکہ کے مقامی سرخ فام باشندوں کا مسکن تھا اور سرخ فاموں کی غصب شدہ زمینوں میں سے ایک حصے میں ہالی ووڈ نے جنم لیا۔ ہالی ووڈ فلم سازی کے اسٹوڈیوز کی وجہ سے مشہور ہے اور لفظ “ہالی ووڈ” عام طور پر امریکی سینمائی صنعت اور ٹیلی ویژن کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
“ہالی ووڈ” کے معنی لغت میں “مقدس لکڑی” کے ہیں، وہی لکڑی جسے جادوگر اٹھاتے ہیں، ایک پراسرار لکڑی، جس کے ذریعے وہ جادوگری کرتے ہیں اور عجیب یہ ہے کہ ہالی ووڈ اور اس جادوئی لکڑی کے درمیان گہری نسبت پائی جاتی ہے۔ مشرقی یورپ، روس اور مرکزی یورپ میں ایک خاصی یہودی آبادی رہائش پذیر ہے جن کو یورپیوں نے آزار و اذیت پہنچائی ہے۔ [مسلمانوں نے نہیں]۔
ہالی ووڈ یہودی دودھ پی کر پروان چڑھا
حقیقت یہ ہے کہ انہیں مسلمانوں نے نہیں ستایا بلکہ وہ تو مسلم اکثریتی ممالک میں امن و امان میں تھے، لیکن مشرقی اور مرکزی یورپ نے انہیں شدت سے ستایا اور اسی بنا پر وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور امریکہ چلے گئے۔
یہودی امریکہ میں پہنچے تو انہيں روزگار کی تلاش تھی یہاں تک کہ نیویارک میں ایڈیسن اور سینما کی نو مولود صنعت سے آشنا ہوئے اور سینما کو ایڈیسن اور ان کے رفقائے کار کے ہاتھوں سے چھین کر کیلی فورنیا اور ہالی ووڈ لے گئے؛ اور ہالی ووڈ کی بنیاد رکھی۔ دنیا بھر میں سینما اور ہالی ووڈ کی تاریخ اور پس منظر کے سلسلے میں مکتوبہ کاوشوں کے مطابق، یہ سینمائی قصبہ یہود کے دامن میں پروان چڑھا، اس نے یہودی دودھ پیا یہاں تک کہ بچپن، لڑکپن اور جوانی کے مراحل کو پیچھے چھوڑ گیا۔ ہالی ووڈ کی ابتدائی فلموں میں 1914ء ایک فلم “عورت نما مرد” (The Squaw Man) ہے جس کا ڈائریکٹر سیسل بی ڈومیل (Cecil B. DeMille) ہے۔
سنہ 1908ء سے سنہ 1913ء تک بھی کچھ چھوٹی سی فلمیں بنی ہیں۔ ہالی ووڈ نے پہلی عالمی جنگ میں سینما کے عالمی دارالحکومت کی شکل اختیار کی اور ” The Squaw Man” سے اپنے کام کا باضابطہ آغاز کیا۔ نیل گیبلر (Neal Gabler) کی کتاب “ہالی ووڈ کی سلطنت” (An Empire of Their Own) اس بارے میں شفافیت کے حوالے سے ایک کاوش ہے۔ وہ ثقافتی مؤرخ، سینما کا نقاد اور سینکڑوں معاصر امریکی مفکرین میں سے ایک ہیں۔
گیبلر سینما کے نومولود طفل کے پالنے والوں کو ہالی ووڈ کے منگولوں کا لقب دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہالی ووڈ کے منگولوں کی بری تربیت ہوئی ہے اور وہ محض مادی اور مالی محرکات کی بنا پر امریکہ کے اہم ترین ابلاغی شعبے کو کسی بھی سازش کے بغیر، اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔ بھونڈی عادتیں سینما میں شدت کے ساتھ اپنے آپ کو نمائش کے لئے پیش کررہی ہیں، شراب نوشی، جوابازی، زنا کاری ہالی ووڈ کے بعض ہی کارنامے ہیں، جنہیں اس نے امریکہ کی سماجی ثقافت میں تبدیل کرلیا ہے۔
ہالی ووڈ، سپنے دکھانے کا ذریعہ
گیبلر کے علاوہ دوسرے دانشوروں نے سینما کی تاریخ لکھی، جو ہالی ووڈ میں یہودی اثر و رسوخ پر تنقید کرتے ہیں اور اس کے مخالف ہیں۔ جارجز سیڈول (Georges Sadoul) نے اپنی کتاب “سنیما کی عمومی تاریخ: عالمی سنیما پر ایک جامع کاوش (l’Histoire générale du cinéma, a comprehensive work on world cinema) میں لکھا ہے: “فن کے لئے اب ڈاکو‎ؤں، جزوی اور کم وقعت والے تاجروں کے سوا کوئی نہیں بچا ہے جن میں سے کچھ نو وارد پناہ گزین ہیں، جیسے ” ولیم فاکس (William Fox)، کار لائملی (Carl Limley)، لوئس مایر (Louis B. Mayer)، سیموئل گولڈ وین (Samuel Goldwyn or Samuel Goldfish)، وارنر برادرز (Warner Brothers.) اور ایڈولف زوکر (Adolf Zucker) وغیرہ”۔
حالیہ شائع ہونے والی فہرستوں کے مطابق ہالی ووڈ کے 1800 بنیادی لکھاری، پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکار یہودی ہیں۔ سینما میں یہودیوں کا اثر و نفوذ تسلط سے کہیں زیادہ کوئی اور چیز ہے۔ یعنی یہودی صرف معاشی لین دین کی حدود میں محدود نہیں رہے ہیں بلکہ سمت متعین کرنے والے بھی یہودی ہیں، پالیسی ساز بھی یہودی ہیں اور سینما پر فرمان روائی کرنے والے مفکرین بھی یہودی ہیں۔
انھوں نے سینما سے صرف معاشی مفادات کے حصول کا فائدہ نہیں اٹھایا ہے بلکہ اس کے ذریعے سے یہودیوں کی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کی نشر و اشاعت کا کام بھی لے رہے ہیں، چنانچہ ہم اس نکتے تک پہنچ ہی جاتے ہیں کہ ہالی ووڈ کا اصل مقام دوسرے درجے کا ہے، پہلے درجے کا کردار فلم اور سینما کے پروڈیوسروں کا ہے جو فلمیں بنا کر پیش کرتے ہیں، تاہم دوسرے درجے کا کردار – یعنی ہالی وود کا کردار – کچھ گہرا ہے، اور یہ کردار اور مقام ہالی ووڈ کو تھنک ٹینک میں تبدیل کرتا ہے؛ چنانچہ ہالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی مصنوعات کو ایسی مصنوعات نہیں قرار دیا جاسکتا ہے جو بس تیار کی گئی اور ان کا کوئی بھی دوسرا مقصد نہیں ہے۔
ہالی ووڈ کا ایک کردار سپنے دکھانے سے عبارت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہالی ووڈ کے سپنے دکھانے کا مقصد کیا ہے؟ جس چیز نے امریکہ اور دنیا کی ثقافت کو بدل دیا، وہ یہی ہالی ووڈ کا خواب دکھانے کا رجحان ہے۔ امریکی سپنا (American Dream) درحقیقت حقیقی دنیا سے خارج ہونے اور عالم وجود کی حقیقت سے غافل ہونے کا سبب بنتا ہے اور یہی امریکن ڈریم دکھانے کا اصل مقصد ہے۔ (1)
لہو و لعب کا اشتیاق اور دنیاوی باجوں گاجوں میں مصروفیت اور اپنے آپ کو دنیاوی زینتوں سے مزین کرنا اور خیالات و اوہام کو ہوا دینا، ایک نئی طرز زندگی کا سبب بنتا ہے اور یہ نئی طرز زندگی در حقیقت ابلیس کی خواہشوں کے مطابق جینے کا نام ہے۔ سپنے تخلیق کرنا مغربی ثقافت کے فروغ اور دوام کا لازمہ تھا، یعنی مغربی ثقافت اگر دوبارہ نہ اٹھتی اور اس میں بت سازی کا اہتمام نہ ہوتا، اور سپنوں کی تخلیق اس کی مدد کو نہ آتی، تو یہ بہت پہلے زائل ہوجاتی۔ اسی بنا پر ہالی ووڈ مغربی تمدن و تہذیب کو قائم و دائم رکھنے کا ضامن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ امریکن ڈریم در حقیقت ایک عالمی سلطنت “American Empire” سے وابستہ تھا اور ہالی ووڈ اسے قائم و دائم رکھنے کا نقیب تھا لیکن آج یہ سلطنت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہوچکی ہے اور آج ایک طرف سے کوئی بھی دشمن امریکہ سے خوفزدہ نہیں ہے اور دوسری طرف سے امریکہ کے معاہدین اور حلفاء اس سے مایوس ہوچکے ہیں، چنانچہ آج امریکن ڈریم تقریبا مکمل طور پر بےاثر ہوچکا ہے اور آج دنیا والے نہ امریکی وزارت دفاع اور سی آئی اے سے ڈرتے ہیں، اور نہ ہی ہالی ووڈ کی فلموں سے متاثر ہوتے ہیں۔ / مترجم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو اسد