شمعون پیریز کے منصوبوں پر عملدرآمد کا ٹھیکیدار محمد بن سلمان سعودی

سعودی عرب نے حال ہی میں بحیرہ احمر کے ساحل پر 500 ارب ڈالر کی لاگت سے نیوم (Neom) نامی جدید شہر تعمیر کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور اسے اپنے اقتصادی وسائل کو بڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا، قوم پرستانہ منصوبہ قرار دیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سعودی عرب نے حال ہی میں بحیرہ احمر کے ساحل پر 500 ارب ڈالر کی لاگت سے نیوم (Neom) نامی جدید شہر تعمیر کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور اسے اپنے اقتصادی وسائل کو بڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا، قوم پرستانہ منصوبہ قرار دیا ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ یہ شہر 26,500 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہوگا اور اسے نیوم سٹی کے نام سے جانا جائے گا، اور اس میں مختلف صنعتیں شامل ہوں گی جیسے توانائی، پانی سے متعلق صنعتیں اور اہم ٹیکنالوجیاں اور خوراک اور جدید صنعتیں اور فلاحی سہولیات۔

سعودی “بن سلمان” یہودیوں کا ٹھیکیدار بن گیا
سعودی ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق، یہ تجارتی اور صنعتی شہر سعودی عرب کے شمال مغرب میں بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع ہؤا ہے اور یہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے دنیا کا پہلا اور منفرد علاقہ ہوگا؛ جو تین ممالک کو ایک دوسرے سے متصل کرتا ہے اور اس کی حدود سعودی عرب سے اردن اور مصر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ صنعتی شہر بحیرہ احمر اور خلیج عقبہ کے ساتھ سمندری بحری تجارتی راستوں کے قریب واقع ہے جو نہر سویز سے جڑے ہوئے ہیں۔
محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اس خطے کی توانائی، ہوا اور شمسی توانائی کو بروئے کار لا کر فراہم کی جائے گی۔
[کسی عرب اخبار نے نہیں بلکہ ایک] صہیونی اخبار “یروشلم پوسٹ” نے حال ہی میں اس منصوبے میں یہودی ریاست کے کردار کو بر ملا کیا ہے اور لکھا ہے کہ “سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صہیونی علاقے ایلات سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر 500 ارب ڈالر کے اپنے ہوشیار شہرSmart City) ) منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ اقتصادی منطقہ (ٍEconomic Zone) اردن اور مصر کے درمیان مشترکہ علاقہ ہے تاہم اس نے تیسری ریاست “یعنی اسرائیل” کا نام نہیں لیا”۔
اس صہیونی اخبار نے مذکورہ یہودی-سعودی منصوبے کو یہودی ریاست کے خلاف کئی عشروں سے جاری عرب لیگ کی پابندیوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیا اور لکھا کہ “یہ اسمارٹ سٹی شمسی توانائی، پانی اور ماحولیاتی اور روبوٹ ٹیکنالوجی اور غذائی صنعت سے متعلق جدید ٹیکنالوجی کی حامل کمپنیوں کا میزبان ہو گا اور یہ تمام شعبے وہی ہیں جن میں کردار ادا کرنے کے لئے اسرائیلی کمپنیوں کی صلاحیت اور طاقت عربی کمپنیوں سے کہیں زیادہ ہے۔
صہیونی کمپنیاں، مذکورہ منصوبے کی حساسیت کی بنا پر 230 ارب ڈالر کے سعودی فنڈ سے اپنے تعلق کی تفصیلات کو صیغۂ راز میں رکھنے پر مجبور ہیں۔
سعودی سرکاری سطح پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کی طرف رغبت نہیں رکھتے اور اگر یہ مسئلہ صہیونی ریاست کی طرف سے نجی سرمایہ کاری کمپنیوں کے سرمائے کے حوالے سے سرکاری سطح پر اٹھایا جائے تو پانی، توانائی، زرعی ٹیکنالوجی اور غذائی صنعت کے شعبوں میں ہر قسم کا تعاون بہت آسان ہو جائے گا۔