صہیونیت کیا ہے اور اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ (۱)

صہیونی نظریہ پردازوں کا شوق ہے کہ صہیونیت کو ایک فکر کے طور پر متعارف کرائیں ایسی فکر جس کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں لیکن یہ لوگ اپنے اس مدعا کے اثبات کے لئے کوئی مدلل ثبوت پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 

صہیونیت (Zionism) کی تعریف

صہیون بیت المقدس میں ایک مقام ہے (1) جس کے اوپر ہیکل سلیمانی (Solomon Temple) مسجد الاقصی اور قبۃ الصخرہ کی تعمیر ہوئی ہے۔ (2) کبھی صہیون سے مراد شہر اورشلیم (یروشلم) لیا جاتا ہے یعنی خدا کا برگزیدہ شہر یا آسمانی شہر۔ یہ اصطلاح علماء کے درمیان مشہور ہے کہ “خدا کی قوم کی آرزو صہیون ہے”۔ (3) بہرحال لفظ “صہیونزم” اسی لفظ سے ماخوذ ہے (اور یہ تسمیہ اس تحریک سے یہودیوں کے اہداف و مقاصد کی مکمل عکاسی کرتا ہے) اور یہ در حقیقت یہودی بورژوازی (Bourgeoisie) سے تعلق رکھنے والا متعصب قوم پرست دھارا ہے، (4) جس کا مقصد فلسطین میں خود مختار یہودی ریاست کا قیام ہے۔ صہیونیت ایک سیاسی تحریک ہے جس کا مقصد یہودیوں کو اکٹھا کرنا اور فلسطین کی طرف ان کی ہجرت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ تاکہ یہودی ریاست – یہودی ثقافت اور مذہب کی علامت کے طور پر- قائم ہو اور اس کی نمایاں خصوصیت یہودی نسل پرستی ہے۔ اس تحریک نے انیسویں صدی میں تھیوڈور ہرتزل کی سرکردگی میں اپنے کام کا آغاز کیا اور عالمی سیاسی لغات میں “صہیونزم” کے نام سے ثبت ہوئی؛ اور اس کے باوجود کہ یہودیوں کے درمیان اس کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اس زمانے کے یورپی طاقتوں کے مفاد میں تھی، انھوں نے اس کو پروان چڑھایا، پہلے برطانیہ نے اس کی حمایت کی اور پھر فرانس نے اور یوں اس تحریک نے اکثر یہودی سیاستدانوں اور مذہبی راہنماؤں کی زعامت سنبھال لی۔
صہیونی نظریہ پردازوں کا شوق ہے کہ صہیونیت کو ایک فکر کے طور پر متعارف کرائیں ایسی فکر جس کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں لیکن یہ لوگ اپنے اس مدعا کے اثبات کے لئے کوئی مدلل ثبوت پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
“صہیونزم کی تاریخ” (History of Zionism) نامی کتاب کے مصنف اور یہودی ایجنسی (Jewish Agency for Israel) کے ایک راہنما ناحوم سوکولوف (Nahum Sokolow) کا دعوی ہے کہ “صہیونی فکر یہودی قوم جتنی پرانی ہے اور یہودی فکر اور مکتب کے نمائندوں نے اس کو رائج کیا تھا”؛ لیکن نامور یہودی مفکر موشے مینوہین (Moshe Menuhin) نے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: “انیسویں صدی تک یہودی سیاسی قوم پرستی نام کی کوئی چیز نہیں تھی؛ اور یہ انیسویں صدی کی دنیا کی جنونی اور خود غرض یورپی سیاسی قوم پرستی تھی جس نے المناک اور احمقانہ یہودی قوم پرستی کو جنم دیا”۔ (5)

جاری۔۔۔

حواشی

۔ دیکھئے: فرہنگ نفیسی، ج3، ص218۔
2۔ قدس اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے نزدیک بہت قابل قدر و احترام ہے۔ قدس میں مسجد الاقصی واقع ہے جو مکہ معظمہ سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ سمجھی جاتی تھی اور [اور آج قبلۂ اول کے نام سے مشہور ہے]، قدس میں قبۃ الصخرہ نامی مسجد اس ٹیلے پر تعمیر ہوئی ہے جہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ یہودی بھی کوہ صہیون کو اپنی قومیت کی علامت سمجھتے اور ان کا خیال ہے کہ ان کے بادشاہوں نے قدیم زمانے میں ان کے قومی و مذہبی مقدسات کو یہیں تعمیر کیا ہے!۔ (ناصر جمال زادہ، اصطلاحات سیاسی، ص59)۔
3۔ خزائی، بن مایه های تاریخی صهیونیسم (صہیونیت کی تاریخی بنیادیں)، (ط 1389ھ ش) ص26۔
4۔ بورژوازی (Bourgeoisie) کا اطلاق معاشرے کے امیر یا خوشحال یا سرمایہ دار طبقے پر ہوتا ہے۔ یہ طبقہ اپنی قوت بھرتیوں، تعلیم و تربیت اور دولت سے حاصل کرتا ہے، اعلیٰ نسبی (aristocracy) نہیں۔؛ ویکی پیڈیا کی تعریف: بورژوازی سماج میں موجود ایک مخصوص طبقے کا نام ہے۔ عرف عام میں اسے سرمایہ دار طبقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ سرمائے کی بدولت مزدور طبقے (یا پرولتاریا) کا استحصال کرتا ہے۔
5۔ http://zionism[.]pchi[.]ir/show.php?page=contents&id=5935