ڈوبتی ہوئی صہیونیت؛

صہیونیت کی شکست و ریخت؛ اسرائیل کے وجود پر شکستگی کی کیفیت طاری

مقبوضہ فلسطین میں خانہ جنگی کا ماحول، صہیونیت کو درپیش شناختی چیلنج، ایک قوم کی تشیل میں "اسرائیل" کہلوانے والی ریاست کی شکست فاش اور تل ابیب میں سیاستدانوں کے درمیان جنگ صہیونی یہودی ریاست کی شکست و ریخت کے اصل اسباب ہیں؛ ایسی ریاست جو تجزیہ نگاروں کے بقول اس وقت "خود شکستگی" (Self-Destruction) کے مرحلے سے گذر رہی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: المیادین ٹی وی چینل کی ویب گاہ نے مقبوضہ بستیوں میں بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف لاکھوں صہیونیوں کے احتجاجی مظاہروں کے بارے میں تجزیاتی رپورٹ شائع کرتے ہوئے خانہ جنگی کے لئے تیار ماحول، غاصبوں کو درپیش شناختی چیلنجوں، ایک واحد معاشرے اور واحد قوم کی تشکیل میں صہیونیت کی شکست کے اسباب اور سیاستدانوں کی باہمی لڑائی پر روشنی ڈالی ہے:
ملاحظہ فرمایئے:
خانہ جنگی کے لئے ماحول تیار ہے
خانہ جنگی کسی بھی ملک یا ریاست میں اچانک اور بلا تمہید شروع نہیں ہؤا کرتی اور عام طور پر کئی شعبوں میں الزامات، تناؤ اور اقدامات کے بعد ظہور پذیر ہوتی ہے۔ دنیا میں کئی ایک معاشرے سماجی و سیاسی ماحولیاتی اسباب کی بنا پر جنگ و جدل کے مستعد ہیں؛ قومی کثرتیت، فرقہ وارانہ تنازعات، نسل، مذہب اور رنگ اور جنسیت کی بنیاد پر نسلی امتیازات ان ہی اسباب میں شامل ہیں۔ یہ مسائل سیاسی اور جماعتی دو قطبیت (یا دوئیت) کے علاوہ ہیں، کہ جب کمزور ریاستیں انہیں نظریاتی پردوں میں چھپا دیتی ہیں اور پہلے سے زیادہ خطرناک نظر آتی ہیں۔
جو چیز ان ریاستوں میں سماجی مامونیت (Social Immunity) کی کمزوری کو تقویت پہنچاتی ہے۔ سیاسی اور مذہبی پس منظر اور معاشرے کی نسلی جڑوں سے قطع نظر، ایک مقصد کا فقدان، نیز اعلیٰ قدروں اور اجتماعی شناخت کا فقدان، عمومی اجماع اور اتفاق رائے کے فقدان سے جنم لیتا ہے۔ جو ریاستیں قبضے اور مقامی باشندوں کی دربدری کی قیمت پر سکونت پذیری کے نتیجے میں، معرض وجود میں آتی ہیں، عام طور پر ایک جامع شناخت و تشخص اور “مقصدِ واحد” سے محروم ہوتی ہیں اور یہ صورت حال معاشرے کی زد پذیری اور ڈھانچے کی کمزوری کو گہرا کردیتی ہے۔
قابض قوتوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی پرانی داستان
صہیونی تحریک کی حالیہ عشروں کی کارکردگی بہت عجیب لگتی ہے اور سماجی و سیاسی نقطہ نظر سے کسی غیر معمولی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتی ہے؛ کیونکہ مقبوضہ فلسطین میں اس غاصب ریاست کے قیام کے آغاز سے ہی انتشار اور انقسام کی صورت حال پائی جاتی تھی۔ اس ریاست کے اندرونی واقعات اور تبدیلیاں اس حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ اس ریاست نے شدید دوئیت کی سطح میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں ایک قدم اور بھی اٹھایا ہے۔ موجودہ کابینہ اور اس کے مخالفین کے درمیان الزامات اور بیانات کے تبادلے، نیز خانہ جنگی کے سلسلے میں منظر عام پر آنے والے انتباہات کے بعد تقریبا ایک لاکھ صہیونیوں نے سنیچر 14 جنوری 2023ع‍ کی رات کو مقبوضہ تل ابیب کے “ہبیما اسکوائر” میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ صہیونی ریاست کے عدالتی نظام کے خلاف نیتن یاہو کی فسطائی کابینہ کے اقدامات اور متنازعہ قوانین وضع کرنے کے سلسلے میں اس کے فیصلوں کے خلاف اسی طرح کے مظاہرے مقبوضہ قدس شریف اور حیفا کے مختلف مراکز میں بھی ہوئے۔
یہ وسیع مظاہرے اس وقت منعقد ہوئے جب غاصب ریاست کے اندر، عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے سلسلے میں – اور دائیں بازو کی تشدد پسند یہودی جماعتوں کے مفادات حاصل کرنے کی غرض سے – نیتن یاہو کی کابینہ کے اقدامات پر وسیع پیمانے پر تنقید ہوئی۔ نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کے وزیر قانون وزیر قانون یاریو لیوین (Yariv Levin) کو ہری بتی دکھائی کہ وہ عدالتی نظام میں اصلاحات کا اہتمام کرے۔ اور لیوین کے ان اقدامات سے غضبناک ہونے والے مظاہرین نے نئی کابینہ کے رہنماؤں پر نازیت (Nazism) کا الزام لگایا۔
پوری مقبوضہ سرزمین میں جامعات اور اکیڈمیوں کے شعبہ ہائے قانون کے سربراہوں نے عدالتی نظام میں نیتن یاہو کابینہ کے وزیر قانون لیوین کی مجوزہ اصلاحات کی مذمتی بیانات جاری کئے اور خبردار کیا کہ یہ اصلاحات “اسرائیلی ریاست” کی مبینہ وسیع البنیاد جمہوری حیثیت اور قانونی نظام کے بنیادی اصولوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں اور یہ تبدیلیاں مختلف سماجی طبقوں کے خلاف امتیازی رویوں اور نا انصافی کا سبب بنیں گی۔
اعلان جنگ صہیونی سیاستدانوں کے زبانی
وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے پہلے، مظاہروں کے دوران اور ان کے بعد، نیتن یاہو کابینہ کے مخالفین نے متعدد بیانات جاری کئے جن سے مقبوضہ اراضی میں خطرناک اندرونی تناؤ کی عکاسی ہوتی تھی۔ یہودی ریاست کے اندر، سیاستدانوں کے درمیان الزامات کی شدت اس ریاست کی شرمناک تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
صہیونی سیاستدانوں کے بیانات کے کچھ نمونے:
سابق صہیونی وزیر جنگ بینی گانٹز کا بیان: “اگر نیتن یاہو کابینہ اسی راستے پر گامزن رہے تو یہ کابینہ خانہ جنگی کی ذمہ دار ہوگی۔ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم عوام کی بڑی تعداد کے ساتھ، سڑکوں پر آئیں اور نیتن یاہو کی نسل پرست کابینہ کے خلاف احتجاج کریں۔۔۔ ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کے خلاف اٹھنے کا وقت آن پہنچا ہے”۔
اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں (یائیر لاپید، بینی گانٹز، منصور عباس، آویگدور لیبرمین (Avigdor Lieberman) اور میراف میکائیل (Merav Michaeli)) کے اجلاس کے بعد، گانٹز نے تصدیق کی کہ اپوزیشن جماعتیں [بقول اس کے] نیتن یاہو کابینہ اور اسرائیلیوں کی جمہوریت کی سرکوبی کے خلاف اقدامات کے سلسلے میں، تعاون کریں گی۔
نیتین یاہو نے بینی کانٹز کا جواب دیتے ہوئے بیان دیا کہ “تمہیں کسی نے جمہوریت کی تباہی اور عدالتی نظام کی تخریب کا مشن نہیں سونپا ہے۔ اگر تم اپنے اس راستے پر گامزن رہوگے تو جان لو کہ اس خانہ جنگی کی ذمہ داری تم پر ہی عائد ہوگی جو اسرائیلی معاشرے میں چھڑ جائے گی”۔
سابق وزیر اعظم یائیر لاپید کی جماعت یش عتید (Yesh Atid) کے ایک رکن پارلیمان کو – ایک ٹی وی انٹرویو کے بعد – دھمکی آمیز ٹیلی فون کال آئی۔ فون پر رابطہ کرنے والے نا معلوم شخص نے اس سے کہا: “ایک بار پھر انٹرویو دو گے تم تمہیں اپنے گھر میں ایک بم ملے گا”۔
ادھر مسلح افواج کے سابق چیف آف جنرل اسٹاف نے مقبوضہ فلسطین کے صہیونی باشندوں کو نیتن یاہو اور انتہاپسندوں کی کابینہ کے خلاف ایک وسیع شہری بغاوت (Civil insurrection) کی دعوت دی۔
“یہودی طاقت” نامی سیاسی جماعت کے رکن پارلیمان اور نیتن یاہو کابینہ کے تشدد پسند ترین رکن ایتمار بن گویر (Itamar Ben-Gvir) کے اتحادی زویکا فوگل (Zvika Fogel) نے بینی گانٹز اور یائیر لاپید پر غداری کا الزام لگایا اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
سابق صہیونی وزیر اعظم یائیر لاپید نے کہا: “ایک ہی دن یہ واقعہ رونما ہوگا: بن گویر دھمکی دیتا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف پانے چھڑکنے والی گاڑیاں استعمال کرے گا۔ زویکا فوگل کہتا کہ مجھے اور یائیر لاپید کو گرفتار کیا جائے اور غداری کے الزام میں جیل میں بند کیا جائے۔ انھوں نے بئر السبع کے علاقے میں ہمارے طالبعلموں کو پاؤں تلے روندنے کی کوشش کی؛ کیونکہ وہ احتجاج کر رہے تھے اور بیان کی آزادی کے سلسلے میں اپنے استحقاق سے استفادہ کر رہے تھے”۔
لاپید نے نیتن یاہو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا: “ہم تمہیں اپنا حق پامال نہیں کرنے دیں گے، اور ہم تمہاری دھمکیوں کے باوجود تمہارے خلاف احتجاجی مظاہرہ کریں گے”۔
یسرائیل بیتنا (اسرائیل ہمارا گھر ہے Yisrael Beiteinu) کا رہنما اور سابق صہیونی وزیر جنگ آویگدور لیبرمین نے الزام لگایا کہ “نیتن یاہو “اسرائیل” کے باشندوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنے کا اصل سبب ہے”۔
احتجاجی مظاہروں کی دعوت اور اہتمام کا کام “کالا جھنڈا تحریک (Black Flag movement)” کے ذمے تھا جس نے نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: “نیتن یاہ کی بغاوت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی اور اسرائیلی عوام ظلم کا سامنا نہیں کریں گے؛ آج (یعنی 14 جنوری 2023ع‍ کی) جس بے چینی کا آغاز ہؤا ہے، یہ ایک نہ تھمنے والی تحریک کا آغاز ہے جو مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم، اور مساوات اور آزادی کی اقدار اس کے ساتھ ساز باز نہیں کریں گی”۔ واضح رہے کہ دو ہفتے گذرنے کے باوجود، احتجاجی مظاہرے شب و روز جاری ہیں اور ادھر فلسطینی مقاومت اور صہیونی ریاست کے درمیان جنگی صورت حال نے بھی شدت اختیار کر لی ہے۔
تل ابیب میں مظاہروں کے ایک مہتمم یائیر اور کنیسٹ (صہیونی پارلیمان) کے سابق رکن گولان (Yair Golan) نے نیتن یاہو کابینہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا: “نیتن یاہو کابینہ کے اراکین جمہوریت کی تباہی کی راہ پر گامزن ہیں؛ اور ہم شہری بغاوت کرکے ہڑتالوں اور مظاہروں کی حمایت کریں گے”۔
کھوکھلے صہیونی
موجودہ حالات – منجملہ بیانات، الزامات اور احتجاجی مظاہرے – اس ناقابل انکار حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ صہیونی دشمن اپنے آغاز سے آج تک کے تزویراتی مقاصد میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں؛ جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ایک وسیع البنیاد شناخت اور ایک واحد مقصد کے دائرے میں ایک صہیونی معاشرے کی تشکیل کا عمل اپنا طبعی عمل مکمل نہیں کر سکا ہے؛ چنانچہ سیاسی اور نظریاتی لحآظ سے معاشرہ سازی کے عمل میں ناکامی کے نتائج میں سے ایک ہے؛ اور اس ناقص معاشرے کا سماجی نظام بھی ہر روز پہلے سے زیادہ فرسودہ اور منتشر ہو چکا ہے۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ بائیں بازو اور دائیں بازو کے صہیونی سیاستدانوں اور پھر سیکولر اور مذہبی صہیونیوں کے درمیان دراڑیں ہر روز گہری ہو رہی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات دشمنی اور جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے تنازعات میں بدل چکے ہیں؛ اور یہ وہی عمل ہے جو رفتہ رفتہ “قومی یکجہتی” کی شکست و ریخت پر منتج ہوگا۔
کچھ صہیونی متفکرین مقبوضہ سرزمین میں خانہ جنگی کے خطروں سے آگاہ تھے؛ جن ميں سے ایک آوشلوم ولان (Avshalom Vilan) ہے جس کا ماننا ہے کہ “مذہبی اور سیکولر دھڑوں کے درمیان گہری دراڑیں اور مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کے درمیان شدید اختلافات کے پیش نظر، اس طرح کی جنگ (یعنی خانہ جنگی) کا امکان پایا جاتا ہے اور انتہاپسند دایاں بازو اسرائیل کے وجود کے لئے ہولناک خطرہ ہے اور اس کے کرتوت <مبینہ عبادتگاہ کے تیسری بار انہدام اور یہودی ریاست کے قیام> منتج ہو سکتے ہیں”۔
غاصب ریاست کے اندرونی اشاریوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اندرونی انتشار ایک گہرے بحران میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس سے نمٹنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ یہ عمل جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کی بنیاد “اپنی بقاء کا تحفظ اور مخالفین کو منظر عام سے ہٹانے، بقائے باہمی سے عاجز ہونے، اور “گھل مل جانے یا باہمی تعاون” کے بن گوریون کے نظریئے کی ناکامی پر استوار ہوئی ہے۔ یہودی ریاست کے اندر خونریز تصادم مزید ایک “جماعتی یا سیاسی جدوجہد” نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک نظریاتی تصادم ہے جس کا مقصد فریق مقابل کو میدان سے نکال باہر کرنے (یا ناک آؤٹ) کرنا ہے۔ یہ صورت حال جعلی ریاست کے لئے خوداجنبیت اور تشخص کھو جانے کا سبب بنی ہے جس کے نتیجے یہودیوں کی دو عشروں سے جاری الٹنی نقل کی رفتار میں اضافہ ہوگا کیونکہ وہ آج نامعلوم اور انجانے انجام کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ عافیت اسی میں دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر اپنے انجانے مستقبل سے فرار کر جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔