صہیونیت کیا ہے اور اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ (3)

صہیونیت کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟

یہودیوں کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں نے ان پر ظلم کیا ہے اسی وجہ سے وہ تمام اقوام عالم بالخصوص عربوں کی دشمنی اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

1- ارض موعود کو واپس لینا!
یہودیوں کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں نے ان پر ظلم کیا ہے اسی وجہ سے وہ تمام اقوام عالم بالخصوص عربوں کی دشمنی اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ عربوں نے ان کی سرزمین چھین لی ہے چنانچہ ارض موعود کو واپس لینا ان کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے جہاں وہ “نئے عالمی نظام” کا اعلان کرنا چاہتے ہیں!
یہودی تورات کو دستاویز بنا کر فلسطین کی مالکیت کے دعویدار ہیں۔ تورات میں ہے کہ خدائے متعال نے فلسطین، ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا کیا اور زور دیا کہ ان کی نسل کو یکتا پرست ہونا چاہئے ورنہ اللہ انہیں اس سرزمین سے نکال باہر کرے گا؛ حضرت موسی (علیہ السلام) پر بھی یہی شرط رکھی گئی اور اللہ نے یہودیوں سے مضبوط عہد و پیمان لیا۔ لیکن اس شرط کو ملحوظ نہيں رکھا گیا اور اللہ نے یہودیوں کو دو مرتبہ فلسطین سے نکال باہر کیا اور تیسری مرتبہ انہیں ہمیشہ کے لئے نکال باہر کیا۔ بنی اسرائیل پہلی مرتبہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں فلسطین سے مصر ترک وطن پر مجبور ہوئے اور ان کی چھ نسلیں وہی رہیں اور خدائے حکیم نے انہیں موسی (علیہ السلام) کے ذریعے مصر سے پلٹا دیا۔ ان کی دوسری جلا وطنی سنہ 584 قبل از مسیح بابل کی طرف انجام پائی جب بابل کے بادشاہ بُخت نصر نے اورشلیم کو فتح اور ہیکل سلیمانی کو منہدم کر دیا۔ اور آخرکار سنہ 70ع‍ میں، حضرت عیسی (علیہ السلام) کے اتمام حجت کے بعد، رومیوں کے ذریعے اس قوم پر اللہ کی کڑی آزمائش نازل ہوئی اور یہودی ہمیشہ کے لئے سرزمین فلسطین سے نکال باہر کئے گئے۔ اگر یہودی فلسطین میں واپسی کے خواہاں ہیں تو توبہ کریں اور اپنے باپ دادا کے راستے کو ترک کریں۔ یہ موضوع اس آیت کریمہ سے اخذ کیا جاسکتا ہے:
“عَسَى رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا؛ ممکن ہے کہ اللہ تم پر رحم کرے اور اگر تم نے پھر ایسا کیا تو ہم بھی پھر ایسا ہی کریں گے”۔ (12)
یہودی اس حقیقت کو دوسروں سے کہیں بہتر جانتے ہیں چنانچہ اپنی جلاوطنی کے بعد انیسویں صدی تک انھوں نے واپسی کے لئے کوئی اقدام نہيں کیا؛ تاہم انیسویں صدی میں یہودی بدعت گذاروں نے تورات کی رو سے! فلسطین پر اپنی مالکیت کا دعوی کیا۔ (13)
صہیونی ریاست کا بانی تھیودور ہرٹزل اپنی حکمت عملی کے بارے میں لکھتا ہے: “اسرائیل کی سرحدیں اس قدر وسیع ہونگی کہ داؤد اور سلیمان کی عملداریوں پر بھی مشتمل ہونگی اور یہ حدود ضرورت کے مطابق اور یہودی مہاجرین کی تعداد میں اضافے کی صورت میں متغیر ہونگی، [اور بڑھتی رہیں گی]”۔ اس مضحکہ خیز تفکر کے مطابق، وسعت پسندی صہیونیت کی جدائی ناپذیر خصوصیت ہے جس کے لئے بہت بڑی ابلاغیاتی اور عسکری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان کی تزویراتی منصوبہ بندی میں آس پاس کے ممالک کے زیادہ سے زیادہ سرزمینوں کا غصب اور جبر و طاقت کے ذریعے وہاں کے باشندوں کا جبری انخلاء اور عربوں کو ہر وقت ہراساں رکھنا نیز دولت کی لالچ دے کر ترک وطن پر آمادہ کرنا یا فرار پر مجبور کرنا بھی شامل ہے جو غاصب یہودیوں کے خیال میں اس مسئلے کا حل ہے۔ (14)

 

12۔ سورہ اسراء، آیت 8۔
13۔ https://bayangolpayegan.ir/1393/05/24/خداوند-فلسطین-را-به-ابراهیم-و-نسل-موحّد/
14۔ مجید صفا تاج. تروریسم صهیونیستی (صہیونی دہشت گردی)، ج1، ص144