صہیونی ریاست زوال اور شکست و ریخت کی ڈھلان پر ۔۔۔ ڈاکٹر صفاتاج
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مغربی ایشیا کے مسائل کے ماہر و تجزیہ کار نے کہا: صہیونی ریاست کی سیاسی اورعسکری دفاعی صلاحیت کھو چکی ہے اور یہ ریاست شکست و ریخت اور زوال کی ڈھلان پر لڑھک رہی ہے۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک (حرکۃ الجہاد الاسلامی) کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ اور آن کے ہمراہ آئے ہوئے وفد نے بدھ (مورخہ 14 جون 2023ع) کی شام کو رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) سے ملاقات اور بات چیت کی ہے۔ رہبر انقلاب نے صہیونی ریاست کے خلاف حالیہ پانج روزہ جنگ میں جہاد اسلامی کی فتح پر انہیں ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کیا اور فرمایا کہ صہیونی ریاست کی موجودہ صورت حال 70 سال قبل کی نسبت بالکل مختلف ہے اور صہیونیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا 80واں یوم تاسیس نہ دیکھنے کے حوالے سے فکرمند ہوں۔
رہبر انقلاب کی کاوشوں کے تحفظ و اشاعت کے دفتر کے خبررساں مرکز نے اسی مناسبت سے مغربی ایشیا کے مسائل کے تجزیہ کار ڈاکٹر مجید صفا تاج سے گفتگو کرتے ہوئے فلسطینی مقاومت کے مقابلے میں صہیونی ریاست کی انفعالی صورت حال اور اس ریاست کے زوال اور شکست و ریخت کی نشانیوں کے بارے میں گفتگو کی ہے:
سوال: صہیونی ریاست کی تاسیس سے لے کر سنہ 1980ع کی دہائی تک اسرائیل کی فوجی طاقت ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھی اور صہیونی قبضہ گری پھیلانے میں کافی حد تک کامیاب رہتے تھے۔ لیکن 90 کی دہائی کے بعد فلسطینی قوم کی مقاومت (مزاحمت)، نیز فلسطین سے باہر محور مقاومت کو رفتہ رفتہ تقویت ملی اور مقاومت نے متعدد فتوحات کو رقم کیا۔ حالیہ برسوں میں صہیونی ریاست حکومت کے عدم استحکام اور مختلف سیاسی اور سماجی بحرانوں سے دوچار ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ان بحرانوں نے صہیونیوں کی سیاسی اور عسکری تسدیدی صلاحیتوں اور اندرون خانہ سماجی انتظامات پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ کیا صہیونیوں کی مختصر سی تاریخ کی رو سے کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی ریاست زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہو رہی ہے؟
جواب: صہیونیوں کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے لئے دو مراحل کی طرف اشارہ کرنا چاہئے۔ ابتداء میں اس ریاست کی تاسیسی عمل اور ماحول سازی کا مرحلہ ہو جو ایسی سرزمین میں قائم کی گئی جہاں ایک قوم موجود تھی، اور صہیونیوں کو ملت سازی اور حکومت سازی کی غرض سے اس سرزمین میں جمع کیا گیا۔ ملت سازی کے حوالے سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن سنہ 1948ع میں اس وقت کی طاقتوں ـ یعنی برطانیہ، امریکہ اور سوویت اتحاد ـ کی مدد اور اقوام متحدہ کی تائید سے، حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
صہیونی ریاست تاسیس کے بعد دوسرے ـ یعنی استحکام اور توسیع کے ـ مرحلے میں داخل ہوئی۔ سنہ 1948ع میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181 (المعروف بہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ) کو پامال کرتے ہوئے، صہیونیوں نے مزید اراضی پر قبضہ کیا۔ سنہ 1967ع میں عرب _ اسرائیل چھ روزہ جنگ میں صہیونیوں نے اپنا رقبہ چار گنا بڑھا دیا؛ یعنی 22 فیصد باقیماندہ فلسطینی اراضی کے علاوہ مصر کے صحرائے سینا اور شام کی جولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کیا۔
سنہ 1982ع میں آنجہانی ایریل شارون نے خلیج فارس کے تیل کے کنؤوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی پیش کیا تھا اور اسے یقین تھا کہ اگر صہیونی فوج خلیج فارس پر حملہ کرے تو وہ خلیج فارس میں موجود تیل کے کنؤوں پر قبضہ کر سکتی ہے! اس سال تک صہیونی ریاست کی توسیع پسندانہ پالیسی تل ابیب کے لئے اگے کی طرف تھی اور اسے بالادستی حاصل تھی۔
اسی سال سنہ 1982ع میں صہیونی ریاست نے، لبنان میں تعینات فلسطینیوں کی کاروائیوں کے بہانے لبنان پر حملہ اور لبنان کے نصف رقبے پر قبضہ کیا۔ صہیونی نے سوچا کہ لبنان پر قبضہ بھی دوسری عرب سرزمینوں پر قبضے کی طرح ہوگی، چنانچہ وہ اپنی سرحدوں کو وسعت دے سکتے ہہیں اور لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو بھی اپنے مقبوضات میں ضم کر سکتے ہیں؛ لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
صہیونی لبنان پر قبضے کے وقت بیروت کے جنوبی نواح میں مشکلات سے دوچار ہوئے۔ انہوں نے پہلی بار ایک عرب دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تھا لیکن پہلے چند دنوں میں ہی نوجوانوں کی ایک جماعت نے جنوبی بیروت کے مثلث خلدہ میں مقاومت (مزاحمت) کا آغاز کیا۔
سنہ 1982ع میں ہی، جب یہودی ریاست نے لبنان پر حملہ کیا، لبنان میں اس ریاست کے خلاف مقاومت تشکیل پائی اور ہم اسے صہیونیوں کی قبضہ گری کے اختتام کا آغاز سمجھ سکتے ہیں۔ سنہ 1982ع کے بعد رفتہ رفتہ، مقاومتی تحریکیں تشکیل پائیں۔ لبنان میں ہی صہیونی ریاست کی شکست و ریخت اور زوال و سقوط کے ناقوس بج اٹھے اور غاصب ریاست مرحلہ بہ مرحلہ اور علاقہ بہ علاقہ لبنان سے پسپا ہونے پر مجبور ہوئی۔
یہاں تک کہ سنہ 2000ع میں حزب اللہ کی مختصر سی کاروائی کے بعد صہیونیوں کو لبنان سے مکمل طور پر بھاگنا پڑا۔ لبنان کی اسلامی مقاومت نے سنہ 1982ع میں باضابطہ طور پر اپنی موجودگی کا اعلان کیا، مقاومت کی کاروائیاں منظم ہوئیں، اور 90 کی دہائی میں صہیونی ریاست کے منحوس پیکر پر کاری ضربیں ماری گئیں۔ یہ ریاست لبنان سے بھاگنے پر مجبور ہوئی، چنانچہ یہ ریاست سنہ 2000ع میں لبنان سے مکمل طور پر نکال باہر کی گئی۔
حزب اللہ لبنان اور لبنان کی مقاومت اسلامی نے مقبوضہ فلسطینی اراضی کی فراموش شدہ نسل کو جھنجھوڑ کر جگایا۔
یہودی ریاست کو لبنان میں شکست ہوئی اور فلسطین کے اندر بھی آہستہ آہستہ تحریک انتفاضہ شروع ہوئی۔ پہلی انتفاضہ تحریک 1987ع میں شروع ہوئی اور دوسری انتفاضہ ـ یا انتفاضہ الاقصیٰ ـ کا آغاز سنہ 2000ع میں ہؤا، اور اس کے بعد صہیونیوں کی آبادیاتی ساخت کے پیش نظر، انہیں متعدد بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا اور کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ صورت حال جاری تھی یہاں تک کہ صہیونیوں کو سنہ 2005ع میں پہلی بار فلسطین کے اندر ہی پسپائی اختیار کرنا پڑی اور غزہ کی پٹی سے صہیونی قبضہ ختم ہؤا۔ فلسطینی مقاومت نے پہلی بار فتح پا لی اور ایک مقبوضہ علاقے کو آزا کرا لیا اور یہ علاقہ مقاومت کی چھاؤنی بن گیا۔ سنہ 2006ع میں صہیونیوں کو دوسری بڑی ناکامی کا مزہ چکھنا پڑا اور 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ سے پٹ گئے۔ انھوں نے سنہ 2008ع کے آخری اور 2009 کے ابتدائی دنوں میں غزہ پر 22 روزہ جنگ مسلط کی، سنہ 2010ع میں صہیونیوں کی جنگی صلاحیت سکھڑ گئی اور غزہ پر حملہ کیا تو 11 دن تک لڑ سکے اور پھر جنگ بندی کی بھیک مانگنے لگے اور سنہ 2014 میں انہوں نے غزہ پر بڑا حملہ کیا جو 51 دن تک جاری رہا، اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تمام جنگوں میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور کوئی کامیابی حاصل کئے بغیر پسپا ہو گئے۔
جاری
تبصرہ کریں