صہیونی فلمی صنعت

البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہودی سینما کا آخرالزمانی تفکر بظاہر دانیال نبی(ع) کی کتاب، ارمیاء اور حزقی ایل کی کتابوں نیز آخرالزمان کے حوالے سے یوحنا کے مکاشفات سے ماخوذ ہے۔ ان کاوشوں میں آخرالزمان کے تصورات کے سانچے علامتی ہیں چنانچہ ان کی گوناگوں تفسیریں اور تاویلیں ممکن ہیں۔

فاران؛ آج کی دنیا میں فلم اور سینما کی صنعت ایک مقبول عام ابلاغیاتی ادارے کے طور پر لوگوں کی زندگی میں بہت مؤثر کردار ادا کر رہی ہے؛ کیونکہ لوگ تفریح کی غرض سے – یہ جانے بوجھے بغیر، کہ فلم ان کی زندگی کو متاثر کرتی ہے – سینما چلے جاتے ہیں۔ سینما نے اپنی خاص کشش کی بنا پر لوگوں کے عالمی برادری کے طرز سلوک، طرز زندگی اور حتی کہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی رویوں کو متاثر کیا ہؤا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ مغربی فلمی صنعت اور ہالی ووڈ نے کس طرح سے اقوام عالم کے رویوں، طرز زندگی اور ثقافت کو بدل کرکے رکھا ہے اور انسانی معاشروں کا رخ علمانیت اور لبرلزم کی طرف موڑ دیا ہے۔ (1)
دلچسپ امر یہ ہے کہ آج کا ہالی ووڈ – یا بالفاظ دیگر امریکہ اور مغرب کی فلمی صنعت ابتداء ہی سے – یہودی تھی۔ اگرچہ نیل گیبلر (Gabler neal) اپنی کتاب “ہالی ووڈ کی سلطنت” (2) میں سینما کی ابتدائی ایجاد کو تھامس ایڈیسن (Thomas Edison) اور ان کے رفقائے کار سے نسبت دیتے ہیں لیکن یورپ کے پناہ گزین یہودیوں نے امریکہ میں اس صنعت پر قبضہ کیا اور اس کو بدل دیا۔ “یونیورسل پکچرز”، “پیراماؤنٹ پکچرز”، “وارنر برادرز”، “نیوز کارپوریشن”، “ٹوینٹی فرسٹ سینچری فاکس”، “سونی” اور فلم سازی کی کئی دوسری مشہور کمپنیوں کے مالک یہودی ہیں۔
فلمی صنعت کے مالک یہودیوں کا صہیونیت کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ (3) اس مدعا کے اثبات کے لئے متعلقہ فلموں میں یہودی اساطیر کی فراوانی ہے؛ جیسے: اعلی نسل، ہوم لینڈ، برگزیدہ قوم وغیرہ۔ (3) سینما نے ہالوکاسٹ کے حوالے سے بعض مشہور کاوشوں اور “حضرت موسی علیہ السلام کی زندگانی” سمیت بعض اینی میشن فلموں بشمول “چکن رن” (Chicken Run) کے ذریعے کوشش کی ہے کہ صہیونیت کو جائز قرار دے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنا دے۔ (5)
چنانچہ آخرالزمان اور دنیا کے اختتام جیسے موضوعات پر سینما کی نگاہ بھی صہیونی یہودیوں کے تفکرات سے متاثر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرالزمان کے حوالے سے ہالی ووڈ یا صہیونیت کی نگاہ کی جڑیں عیسائی صہیونیت کے تفکرات، دینیات، الٰہیات، سیاسیات اور متعدد اہداف و مقاصد میں پیوست ہے؛ کیونکہ یہودیوں نے پوری تاریخ میں اپنے روایتی دشمن یعنی عیسائیوں کو میدان سے نکال باہر کرنے کی بہترین کوششیں کی ہیں چنانچہ انھوں نے عیسائیت کو چھوٹے بڑے فرقوں میں تقسیم کردیا اور تفرقے کے بطن سے ایک ناجائز بچہ پیدا ہؤا جس کا نام “صہیونی عیسائیت” ہے؛ جس کے اہداف و مقاصد، مشن، عقائد اور دنیا کے اختتام کے حوالے اس کی نگاہ، یہودی اور صہیونی نگاہ ہی ہے۔ (6)
البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہودی سینما کا آخرالزمانی تفکر بظاہر دانیال نبی(ع) کی کتاب، ارمیاء اور حزقی ایل کی کتابوں نیز آخرالزمان کے حوالے سے یوحنا کے مکاشفات سے ماخوذ ہے۔ ان کاوشوں میں آخرالزمان کے تصورات کے سانچے علامتی ہیں چنانچہ ان کی گوناگوں تفسیریں اور تاویلیں ممکن ہیں۔ چنانچہ آخرالزمان سے متعلق مختلف فلموں میں مختلف مثبت اور منفی اساطیر اور افسانے پائے جاتے ہیں جو یونانی، مصری، رومی، عیسائی وغیرہ، ثقافتوں سے ماخوذ ہیں۔
فلم دی میٹرکس کا جائزہ
ہیرو بنانے کا رجحان، نجات دہندہ کے آنے کا عقیدہ، طاقتور شیطانی موجودات کا عقیدہ، جارحین کے خلاف تشدد اور عسکری اقدام کا لازم ہونا، سرزمینوں کا شیطان اور شیطانی موجودات کے ہاتھ غصب ہونا، جیسے موضوعات صہیونیوں کی آخرالزمانی فلموں کے اصلی اجزاء کو تشکیل دیتے ہیں۔ ان فلموں میں نام، پیغامات اور نشانیاں صہیونی اہداف و مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلم دی میٹرکس (The Matrix) میں ہم دیکھتے ہیں کہ شہر زایون (zion = صہیون) کے باشندے یعنی صہیونی، زمین کے واحد جنگجو ہیں جو میٹرکس نامی انتہائی شرپسند اور طاقتور کمپیوٹر کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
لیکن جن عناصر کو اس قسم کی فلموں میں زیادہ بروئے کار لایا گیا ہے وہ خفیہ فرقے، شیطان اور شیطان پرستی وغیرہ، ہیں جو یہودی تصور یا قبالہ پرستی (Kabbalism) کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ پانچ فسطوں پر مشتمل فلم منحوس طالع (The Omen) یا ڈرامہ سیریز “The Exorcist” وہ فلمیں ہیں جو انسان کی زندگی پر شیطان کے تسلط کی براہ راست تصویر کشی کرتی ہیں۔ ہیری پوٹر (Harry Potter) کا موضوع بھی یہی ہے لیکن ہیری پوٹر میں یہ شیطانی تسلط بالواسطہ طور پر جادو کی صورت میں بیان ہؤا ہے اور اس میں شیطان کا نام لارڈ ولڈیمورٹ (Lord Voldemort) ہے۔ (7)
دریں اثناء اسلاموفوبیا اور اسلام دشمنی کو بھی آخرالزمان سے متعلق فلموں کے مختلف مراحل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ موضوع بھی قبالہ مکتب (یہودی تصوف) کی خاص شیطانیات (Satanology) اور آخرالزمانی سینما کو حاصل سنجیدہ صہیونی-یہودی حمایت ہے۔ (8) فلم وش ماسٹر (Wishmaster) میں شیطان، ایران سے ایک مجسمے کے ہمراہ، امریکہ آتا ہے اور ڈرامہ سیریز “The Exorcist” میں شیطان کا سراغ سرزمین نینوا سے ملتا ہے۔ فلم ورلڈ وار زی (World War Z) میں زومبی (Zombies) سب مسلمان ہیں جو یہودیوں کی حائل دیوار کو آلودہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس طرح کی بےشمار دیگر مثالیں۔
آخر میں کہنا چاہئے کہ بین الاقوامی صہیونیت جس نسل، گروہ یا ملک کے خلاف ہو، بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر آخر الزمان کے واقعات کو اس سے جوڑتی ہے اور انہیں شر کی قوت یا منفی قوت کے عنوان سے پیش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ممی 1 اور 3 (The Mummy 1 & 3) میں مصریوں اور چینیوں کو اور ہیل بوائے (Hellboy) میں جرمنیوں کو شر کی قوت کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ البتہ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کو موضوع بنانے کا سبب یہ بھی ہے کہ یہ فلمیں دیکھنے والوں کے لئے پرکشش بنیں اور ان کی تنوع پسندی کے احساس کو مطمئن کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1 – فصلنامہ سیاحت غرب، ارتباطات و رسانہ ہا (سہ ماہی سیاحت غرب، مواصلات اور ذرائع ابلاغ): قدرت مالکیت رسانہ ہا (ذرائع ابلاغ کی مالکیت کی قوت)، مرداد1385، شمارہ 37، ص47-34٫

2- گابلر، نیل (Gabler neal)، امپراتوری ہالیوود (ہالی ووڈ کی سلطنت)، ترجمہ: الہام شوشتری زادہ، طبع اول: 1390ھ شمسی، تہران، سایان.

3- فصلنامہ راہبرد، ارتباط ہویتی میان یہود و صہیونیسم (سہ ماہی اسٹراٹیجی، یہودیت اور صہیونیت کے درمیان شناختی رابطہ)، خزان 1285ھ ش، شمارہ: 41(ISC)، ص375-412٫
4۔ http://jscenter.ir/jews-and-the-media/jews-and-hollywood/5886.
5۔ https://mouood.org/component/k2/item/630.
http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=20152.
6۔ http://old.aviny.com/occasion/jang-narm/masihyat/sayhonisti2.aspx.
دین در سینمای شرق و غرب (دین مشرقی اور مغربی سینما میں)، ڈاکٹر محمد حسین فرج نژاد، محمد سعید قشقائی، طبع اول 1396ہجری شمسی، قم، ادارہ کل پژوہش ہای رسانہ ای، ص177۔
7- دین در سینمای شرق و غرب، ص178٫
8- فصلنامہ (سہ ماہی) سیاحت غرب، اسلام ہراسی (اسلامو فوبیا): غالب امریکی دھارے میں اسلام دشمنی کی ترویج، بہمن 1391ھ ش، سال دہم، شمارہ 114، ص66-40٫