فاران؛ صہیونی نیو ویژن الائنس تحریک (Alliance Movement for New Zionist Vision [ANZV]) تین گروہوں سے تشکیل پائی ہے: لاوی (LAVI)؛ کومہ (Kumah) اور دورینو (Doreinu)۔ ہیلا ہرشکووز (Hila Hershkoviz) لاوی گروپ کی بانی ہے۔
کومہ گروپ کا ڈائریکٹر ییشائے فیشر (Yishai Fleisher) ایک ابلاغیاتی شخصیت اور شہر الخلیل کے ریڈیو چینل کا ڈائریکٹر ہے۔
دورینو گروپ – جو اس اتحاد میں شامل ہؤا ہے – کا ڈائریکٹر جوناتھن کادوک (Jonathan Kadoch) ہے۔
اس تحریک کا خیال ہے کہ کہ یہودیوں کو مغربی تشخص کے ساتھ متعارف نہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین میں رہائش پذیر یہودیوں کے عنوان سے، مقامی طور پر اور مغرب سے بالکل الگ کرایا جانا چاہئے۔
اس تحریک نے پہلی بار سنہ 2015ء میں صہیونیوں کی سینتیسویں عالمی کانفرنس میں شرکت کرکے دو نشستیں حاصل کیں اور یوں اس کو شہرت ملی۔ شارونا ایشیت کوہین (Sharona Eshet Kohen) اس تحریک کی سربراہ ہے۔ اس نے بن گورین یونیورسٹی سے “اسرائیلی اسٹڈیز” میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
یہودی تشخص کی طرف واپسی
شارونا ایشیت کوہین نے ٹائمز آف اسرائیل میں ایک مضمون بعنوان “یہودی تشخص کی بازیافت (Rediscovering Jewish Identity)” چھپوایا جس میں اس نے لکھا تھا: “سنہ 2001ء میں جب میں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہی تھی، ایک دن مجھے یونیورسٹی کی حدود میں، اسرائیل کی حمایت میں گذشتہ تقریر کی وجہ سے، طلبہ کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے طلبہ کے اس برتاؤ کی بنا پر یونیورسٹی کی شکایت کردی۔ ہزاروں برسوں سے ہم یہودی امریکہ اور یورپ میں ایک غیر یورپی اور اجنبی قوم کے طور پر جانے جاتے تھے، اور کہا جاتا تھا کہ ہمارا تعلق مغربی ایشیا سے ہے، اور یوں ہم سفید فاموں جیسے حقوق اور رعایتوں سے محروم تھے۔
مغربی سفید فام باشندے
آج، اکیسویں صدی میں یہودیوں کو مغربی سفید فام باشندوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ گوکہ یہ مسئلہ مغرب میں یہودیوں کو کم ایذارسانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ لیکن دوسری طرف سے یہودی بھی اپنی مذہبی اور قومی “بنی اسرائیلی” تشخص سے دور ہوچکے ہیں اور صرف ایک دین کے پیروکار سمجھے جاتے ہیں اور انہیں اسرائیل کے خلاف ابلاغیاتی جنگ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک یہودی شہری کو مشرق وسطی کا مقامی شہری نہیں سمجھا جاتا؛ جبکہ فلسطینیوں کو ایشیائی نژاد افراد کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس تحریک کا خیال ہے کہ صہیونیت سنہ 1947ء تک ایک انقلابی تحریک تھی جس نے بہت کچھ حاصل کیا؛ عبرانی زبان کو زندہ کیا، اور یہودی تارکین وطن کو “ارض موعود” میں پلٹ آئے اور خودمختار یہودی حکومت قائم کی؛ لیکن 1967ء کی چھ روزہ عرب-اسرائیلی جنگ کے بعد سے، صہیونیت، پرجوش یہودی نوجوانوں کی خواہشات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ صہیونیت کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے اور آج کی بہت سی اسرائیلی تنظیموں اور اداروں کی افادیت کی تاریخ گذر چکی ہے۔
یہ تحریک فلسطین میں دو حکومتوں کے قیام کے خلاف ہے اور اس کو صہیونی مشن کی شکست سمجھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ارسلان رفیعیان
ترجمہ: ابو اسد
تبصرہ کریں