صیہونیوں کا فلیگ مارچ، کیا نیا سیف القدس معرکہ شروع ہو جائے گا؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 18 مئی کا دن عبری کیلنڈر کے مطابق 28 آیار ہے۔ اس دن ہر سال مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی آبادکار “پرچم ریلی” یا فلیگ مارچ منعقد کرتے ہیں۔ یہ مارچ باب العامود اور بیت المقدس کے پرانے محلوں سے گزر کر مسجد اقصی کے صحن میں پہنچتا ہے اور پھر […]

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 18 مئی کا دن عبری کیلنڈر کے مطابق 28 آیار ہے۔ اس دن ہر سال مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی آبادکار “پرچم ریلی” یا فلیگ مارچ منعقد کرتے ہیں۔ یہ مارچ باب العامود اور بیت المقدس کے پرانے محلوں سے گزر کر مسجد اقصی کے صحن میں پہنچتا ہے اور پھر وہاں “پرچموں کا رقص” نامی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں صیہونی آبادکار فلسطینیوں کو قدس شریف سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 14 مئی 1948ء میں یوم النکبہ کے دن جعلی صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان ہو جانے کے بعد بیت المقدس کے مغربی حصے پر صیہونیوں کا قبضہ ہو گیا جبکہ بیت المقدس کا مشرقی حصہ اردن کے زیر کنٹرول تھا۔ لیکن جون 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ اور اس میں عرب ممالک کی شکست کے بعد آخرکار مشرقی بیت المقدس بھی صیہونیوں کے قبضے میں چلا گیا۔

مشرقی بیت المقدس کا مغربی بیت المقدس سے الحاق 18 مئی 1967ء کے دن انجام پایا۔ تل ابیب نے اس دن کو “یوم تل ابیب” قرار دے رکھا ہے اور ہر سال اس موقع پر غاصب صیہونی آبادکار پرچم ریلی منعقد کرتے ہیں۔ ماضی میں صیہونی حکومتیں سکیورٹی صورتحال کے باعث اس ریلی کو مسجد اقصی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ لیکن اس سال بنجمن نیتن یاہو نے پرچم ریلی کو بھرپور انداز میں منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یاد رہے نیتن یاہو کی موجودہ کابینہ اسرائیل یکی تاریخ میں شدت پسند ترین کابینہ سمجھی جاتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو ایسے وقت مسجد اقصی میں پرچم ریلی منعقد کرنے پر زور دے رہا ہے جب حال ہی میں غاصب صیہونی رژیم کو پانچ روزہ جنگ میں غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں سے شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دو سال قبل، 18 مئی یا 28 ایار کا دن 28 رمضان المبارک کے موقع پر آیا۔ اس دن فلسطینیوں نے مسجد اقصی میں دھرنا دے رکھا تھا۔ شدت پسند صیہونی آبادکاروں نے مسجد اقصی پر حملہ کیا اور نمازیوں اور مسجد کی بے حرمتی کی۔ اس جارحانہ اقدام کے جواب میں غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف سیف القدس معرکے کا آغاز کر دیا۔ اس معرکے کے نتیجے میں صیہونی آبادکار پرچم ریلی کینسل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پرچم ریلی کا روٹ قدس شریف کے پرانے حصوں جیسے باب الخلیل، باب الجدید اور باب العامود سے گزرتا ہے۔ ہر سال اس موقع پر فلسطینی شہری بھی احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس سال بھی صیہونی پولیس نے پرچم ریلی کے روٹ کا عربی میں اعلان کیا ہے اور یہی طے پایا ہے کہ بیت المقدس کے پرانے علاقے اس میں شامل ہوں گے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں نے پرچم ریلی منعقد ہونے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین میں تناو کی نئی لہر معرض وجود میں آنے کی وارننگ دی ہے۔ دوسری طرف صیہونی سکیورٹی حلقے بھی خود کو غزہ میں اسلامی مزاحمت کے ممکنہ میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ پرچم ریلی کے ردعمل میں فلسطینی تنظیموں نے پورے مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی پرچم لہرائے جانے کی کال دی ہے۔ ایسی فضا میں غاصب صیہونی آبادکاروں اور فلسطینیوں کے درمیان ٹکراو کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جمعرات 18 مئی کے دن اس اشتعال آمیز ریلی میں نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل شدت پسند وزیر بھی شرکت کریں گے۔ ان میں سے ایتمار بن گویر اور بزالل اسموتریج کا نام قابل ذکر ہے۔ یوں گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال شدید سکیورٹی اقدامات انجام پانے کا امکان ہے۔

اکثر سیاسی ماہرین کی نظر میں غاصب صیہونی رژیم کے ایسے اشتعال آمیز اقدامات کا اصل مقصد بیت المقدس پر قبضہ جمانا ہے۔ قدس شریف میں فلسطینی سرگرم رہنما فخری ابودیاب نے اس بارے میں اخبار العربی الجدید سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: “غاصب صیہونی رژیم اور اس کے شدت پسند حکمران قدس شریف پر قبضہ جمانے کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ حالیہ جنگ میں غزہ سے شکست کھانے کے بعد یہ ریلی منعقد کر کے اس کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا: “دوسری طرف قدس شریف اور دیگر حصوں میں مقیم فلسطینی مسلمان اس ریلی کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ ایسی صورت میں واضح ہے کہ صیہونی پولیس بھی آبادکاروں کی حمایت کرے گی۔ لہذا پرچم ریلی کے انعقاد کا دن مقبوضہ بیت المقدس میں مقیم فلسطینیوں کیلئے بہت سخت دن ہو گا۔”

ایک اور فلسطینی رہنما خلیل التفکجی نے بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: “اسرائیل یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ قدس عبری حکومت کا مرکز اور یہودیوں کا دل ہے۔ وہ دنیا والوں پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ قدس تقسیم نہیں ہو سکتا اور وہ اسرائیل کے زیر کنٹرول ہے۔ لہذا مشرقی بیت المقدس کی مرکزیت میں فلسطینی ریاست کا قیام ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ قدس شریف کے بارے میں اسرائیل کی پالیسی ہے۔” انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم گذشتہ کئی سالوں سے قدس شریف میں کھدائی کے ذریعے تبدیلیاں لانے میں مصروف ہے۔ اس کا مقصد مغربی اور مشرقی بیت المقدس کو آپس میں ملا کر ایک کرنا ہے۔ خلیل التفکجی نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ مشرقی بیت المقدس پر صیہونی قبضہ ناجائز ہے لیکن اس کے باوجود اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔